آیات 66 - 68
 

یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا﴿۶۶﴾

۶۶۔ اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹائے پلٹائے جائیں گے، وہ کہیں گے: اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔

وَ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِیۡلَا﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی پس انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔

رَبَّنَاۤ اٰتِہِمۡ ضِعۡفَیۡنِ مِنَ الۡعَذَابِ وَ الۡعَنۡہُمۡ لَعۡنًا کَبِیۡرًا﴿٪۶۸﴾

۶۸۔ ہمارے رب! تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت بھیج ۔

تفسیر آیات

۱۔ جب قیامت کے دن ان کے چہرے آتش جہنم میں دائیں بائیں طرف الٹائے پلٹائے جائیں گے تو اس وقت انہیں اپنی دنیاوی زندگی یاد آئے گی اور حسرت سے کہیں گے: کاش! اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے۔ یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا۔

۲۔ وَ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا: دنیا میں طفیلی سوچ رکھنے والے ہمیشہ ذہنی طور پر غلام ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دماغ سے نہیں، اپنے سرداروں کے استحصالی دماغ سے سوچتے ہیں۔ انہیں استحصال کا حق دیتے ہیں۔ یہ اطاعت طبقاتی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ چونکہ سردار صاحب مال و ثروت ہیں، حکومت و اقتدار میں اونچے درجے کے لوگ ہیں، لہٰذا ان کی بات درست، ان کا موقف صحیح ہوتا ہے۔

۳۔ فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِیۡلَا: سرداروں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔ سرداروں نے تو گمراہ ہی کرنا تھا چونکہ ان کی اطاعت کی بنیاد گمراہی پر تھی۔ بنیاد مال و ثروت کرسی و اقتدار تھی تو اس بنیاد کے پاس سوائے گمراہی کے اور کیا ہو سکتا ہے۔

۴۔ رَبَّنَاۤ اٰتِہِمۡ ضِعۡفَیۡنِ مِنَ الۡعَذَابِ: ایک عذاب اپنی گمراہی کا اور ایک عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔

۵۔ وَ الۡعَنۡہُمۡ لَعۡنًا کَبِیۡرًا: ان پر بڑی لعنت کی درخواست کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ان کو تیری رحمت سے اس قدر دور کر دیا جائے کہ ان تک تیری رحمت کا شائبہ تک نہ پہنچ سکے۔

اہم نکات

۱۔ طفیلی سوچ رکھنے والے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔


آیات 66 - 68