آیات 60 - 61
 

لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡمُرۡجِفُوۡنَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ لَنُغۡرِیَنَّکَ بِہِمۡ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوۡنَکَ فِیۡہَاۤ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿ۖۛۚ۶۰﴾

۶۰۔ اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں افواہیں پھیلاتے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف اٹھائیں گے پھر وہ اس شہر میں آپ کے جوار میں تھوڑے دن ہی رہ پائیں گے۔

مَّلۡعُوۡنِیۡنَ ۚۛ اَیۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَ قُتِّلُوۡا تَقۡتِیۡلًا ﴿۶۱﴾

۶۱۔ یہ لعنت کے سزاوار ہوں گے، وہ جہاں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح سے مارے جائیں گے۔

تشریح کلمات

الۡمُرۡجِفُوۡنَ:

( ر ج ف ) الارجاف: جھوٹی افواہ یا اضطراب پھیلانے کے معنوں میں ہے۔

لَنُغۡرِیَنَّکَ:

( غ ر و ) الاغراء اکسانا کے معنی میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ الۡمُنٰفِقُوۡنَ: اگر منافقین، مریض دل والے اور افواہیں پھیلانے والے یہ تین گروہ اپنی اسلام دشمن حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کو ملک بدر کیا جائے گا۔

الف: ان تین گروہوں میں سے پہلا گروہ منافقین کا ہے۔ ان کے نفاق کا لازمی نتیجہ اسلام اور مسلمان کے خلاف سوچنا اور ان کے خلاف ہر ممکن قدم اُٹھانا ہے۔

ب: دوسرا گروہ بیمار دل والے مسلمان ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں تاہم ان کے منفی رجحانات اسلام اور مسلمانوں کے لیے اسی طرح مضرت رساں ہیں جس طرح منافقوں کی حرکتیں۔ بیمار دل والے قرآنی اصطلاح میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جن میں ایمان نہایت کمزور ہوتا ہے اور وہ کمزور ایمان بھی مفادات سے وابستہ ہوتا ہے۔ جب بھی امتحان کا مرحلہ آیا ان کے ایمان کے قدم اکھڑ جاتے ہیں:

اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ۔۔۔ (۸ انفال: ۴۹)

جب (ادھر) منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری تھی کہ رہے تھے: انہیں تو ان کے دین نے دھوکہ دے رکھا ہے۔

یہاں بھی اس بات میں منافقین اور بیمار دل دونوں کا موقف ایک تھا کہ ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکہ دے رکھا ہے۔

ج: وَّ الۡمُرۡجِفُوۡنَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ: جھوٹی افواہوں کے ذریعہ مسلمانوںمیں بے چینی پھیلانے والے لوگ غیر مسلم یہودی ہو سکتے ہیں جو افواہ پھیلاتے تھے کہ مدینے پر حملہ ہونے والا ہے وغیرہ۔

۲۔ لَنُغۡرِیَنَّکَ بِہِمۡ: اگر یہ لوگ باز نہ آئیں تو آپ کو ان کے خلاف اٹھائیں گے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے خلاف ایسا قدم اٹھانے کا حکم دیں گے جس کے بعد،

۳۔ لَا یُجَاوِرُوۡنَکَ فِیۡہَاۤ اِلَّا قَلِیۡلًا: وہ آپ کے شہر میں نہیں رہ سکیں گے۔ اِلَّا قَلِیۡلًا کچھ دن، جتنی مدت تخلیۂ مکان کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اِلَّا قَلِیۡلًا سے مراد اِلَّا ’’چند لوگوں کے‘‘ بھی ہو سکتی ہے۔

۴۔ مَّلۡعُوۡنِیۡنَ: یہ چند جو شہرمیں ٹھہریں گے اس حال میں ہوں گے کہ مستحق لعنت ہوں گے اور رحمت خدا سے دور یعنی راہ حق کی ہدایت سے محروم ہوں گے۔

۵۔ وَ قُتِّلُوۡا تَقۡتِیۡلًا: اور اپنی زندگی سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔

اہم نکات

۱ ۔ضعیف الایمان، بیمار دل ہمیشہ منافقوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔

۲۔ معاشرے کے سکون کے غارت گروں کو ملک بدر کرنا چاہیے: لَا یُجَاوِرُوۡنَکَ۔۔۔۔


آیات 60 - 61