آیت 70
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾

۷۰۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی (مبنی برحق) باتیں کیا کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ اتَّقُوا اللّٰہَ: تقویٰ اختیار کرو۔ ان باتوں سے اپنے آپ کو بچاؤ جن سے حدود اللہ سے تجاوزلازم آتا ہے اور سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اتَّقُوا اللّٰہَ کا عام ترجمہ یہی اللہ سے ڈرو ہے۔ تقوٰی کا معنی ڈر نہیں ہے بلکہ تقوٰی کا لازمہ ڈر ہے۔ تقویٰ، وقایہ سے بچانے کو کہتے ہیں۔ پس جو شخص اپنے آپ کو خطرات سے بچانے کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ خطرات سے ڈرتا ہے۔ لہٰذا اتَّقُوا اللّٰہَ کا اصل ترجمہ یہ ہے: اللہ (کے عدل) سے بچو یا اللہ (کے عذاب) سے بچو۔

۲۔ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا: اور سیدھی باتیں کیا کرو۔ اس جملے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تقویٰ کا قول اور زبان کے ساتھ اہم تعلق ہے۔ چونکہ جھوٹ بولنے، جھوٹی گواہی دینے سے بہت سے حقوق ضائع ہو جاتے ہیں۔ غیبت، تہمت اور بدکلامی سے مؤمن کا وقار مجروح ہوتا ہے اور زبان کا زخم مندمل نہیں ہوتا۔

حدیث نبوی ہے:

اَذَلُّ النَّاسِ مَنْ اَھَانَ النَّاسَ۔ (الفقیہ ۴: ۳۹۴)

لوگوں میں سب سے زیادہ ذلیل وہ ہے جو لوگوں کی اہانت کرتا ہے۔

حضرت ابی عبد اللہ علیہ السلام سے روایت ہے کہ جبرائیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئے اور کہا:

یَا مُحمَّدِ ! اِنَّ رَبَّکَ یَقُولُ مَنْ اَھَانَ عَبْدِیَ الْمُؤْمِنَ فَقَدِ اسْتَقْبَلَنِی بِالْمُحَارَبَۃِ۔ (مستدرک الوسائل ۹: ۱۰۱)

اے محمد! آپ کا پروردگار فرماتاہے: جو میرے مومن بندے کی اہانت کرتا ہے وہ مجھ سے جنگ کے لیے میرے سامنے کھڑا ہوا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مَا مِن یَوْمٍ اِلَّا وَ کُلُّ عُضْوٍ مِنْ اَعْضَائِ الْجَسَدِ یُکَفِّرُ اللِّسَانَ یَقُولُ نَشَدْتُکَ اللہَ اَنْ نُعَذَّبِ فِیکِ۔ (الکافی ۲: ۱۱۴)

کوئی دن ایسا نہیں کہ جسم کے دوسرے اعضاء زبان کا کفارہ ادا کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ وہ زبان سے کہتے ہیں: ہم اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہمیں عذاب میں نہ ڈالو۔

اہم نکات

۱۔ زبان کو لگام دینا تقویٰ کا اہم ترین ستون ہے۔


آیت 70