آیت 72
 

اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ۷۲﴾

۷۲۔ ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ: اس آیت کے ذیل میں چند نکات قابل توجہ ہیں:

الف: امانت سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ امانت معرفت حق کے حصول کے نتیجے میں آنے والی ذمہ داری ہے۔ دوسرے لفظوں میں: معرفت کے نتیجے میں مکلف ہونا ہے۔ اس پر دلیل اگلی آیت ہے۔ ایمان اور عمل صالح۔ چنانچہ اس امانت کے اُٹھانے والے انسان تین گروہوں میں ہوں گے: منافق، مشرک اور مومن۔

ب: پیش کرنے سے کیا مراد ہے؟ ہمارے نزدیک پیش کرنے کامطلب یہ ہے کہ اس امانت اور دیگر موجودات کا تقابل ہے۔ اس تقابل میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ آسمان اور زمین میں اس بار امانت کے اُٹھانے کی اہلیت نہیں ہے۔ اگرچہ لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ۔۔۔۔ (۴۰ مومن:۵۷ (ترجمہ) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے خلق کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے۔) تاہم جو صلاحیت اس چھوٹی مخلوق میں ہے وہ آسمانوں اور زمین میں نہیں ہے۔ وہ صلاحیت ارادہ و اختیار ہے۔ آسمان و زمین کو خالق نے جس کام پر لگایا ہے اس پر شعور و اختیار کے بغیر گامزن ہیں۔ چنانچہ اپنی گردش لیل و نہار میں اربوں سال میں ایک سیکنڈ کی بھی خلاف ورزی نہیں کرتے لیکن یہ عدم خلاف ورزی اختیار و انتخاب پر مبنی نہیں ہے کہ خلاف ورزی پر اختیار ہونے کے باوجود عدم خلاف ورزی کو منتخب کیا ہو۔

ج: آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کی طرف سے انکار، ان کی عدم صلاحیت کی زبان حال ہے اور ساتھ یہ بتانا بھی مقصود ہو سکتا ہے کہ یہ امانت اس قدر سنگین ہے کہ آسمان و زمین بھی اسے اُٹھانے کی تاب نہیں رکھتے۔

د: البتہ انسان نے اس میدان میں قدم رکھا اور اس بار سنگین کو اٹھا ہی لیا چونکہ انسان ارادہ، اختیار اور انتخاب پر قدرت رکھتا ہے۔ وہ اپنے ارادے کا مالک ہے اور جو ارادے کا مالک ہے اس ارادے کے تحت وہ دو میں سے ایک کا انتخاب کر سکتا ہے اور جو ارادہ و انتخاب کا مالک ہے وہی امتحان کے میدان میں قدم رکھ سکتا ہے اور جو امتحان میں قدم رکھ سکتا ہے اس کے لیے کامیابی و ناکامی کا تصور ہوتا ہے۔

ھ: اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا: چنانچہ یہ امانت وہ چیز ہے جس کا اٹھانے والا ظالم اور جاہل بھی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جو علم کی اہلیت رکھتا ہے لیکن علم نہ ہو اسے جاہل کہتے ہیں اور جو عدل و انصاف پر قائم رہنے کی اہلیت رکھتا ہے پھر عدل پر قائم نہ رہے اسے ظالم کہاجا سکتا ہے۔ مسلوب الارادہ پہاڑ کو نہ جاہل کہا جا سکتا ہے، نہ ظالم۔ انسان چونکہ اپنے ارادے کا خود مالک ہے لہٰذا وہ اس ارادے کو مثبت سمت کی طرف لے جا سکتا ہے اور منفی سمت کی طرف بھی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس امانت سے کیا مراد ہے۔ یہ امانت وہ چیز ہے جس کے اٹھانے کے نتیجے میں انسان ظالم اور جاہل ہو سکتا ہے اور انسان کے ظالم اور جاہل کے وصف سے متصف ہونے پر یہ بات از خود سامنے آتی ہے کہ یہ وہ مخلوق ہے جو صفت علم کے ساتھ متصف ہے۔ جیسا کہ وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۳۱ (ترجمہ) اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔) سے واضح ہے کہ علم اس کائنات میں انسان کی شناخت ہے اور صفت عدل کے ساتھ متصف ہے کہ وہ حکم خدا کی خلاف ورزی نہ کر کے ظلم سے اپنے آپ کو بچانے کی اہلیت رکھتا ہے جب کہ اس میں خلاف ورزی کے رجحانات بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم یہ امین اپنی امانت کو پورا کرنے کے لیے منفی رجحانات کامقابلہ کرتا ہے۔


آیت 72