اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ۷۲﴾

۷۲۔ ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے۔

72۔ اس بار امانت کو اٹھانے کی صلاحیت صرف انسان کے پاس تھی، کیونکہ انسان ہی ارادہ، معرفت اور اختیار کا مالک ہے۔ جو اپنے ارادے کا مالک ہے وہی امتحان کے میدان میں قدم رکھ سکتا ہے اور جو امتحان کے میدان میں قدم رکھ سکتا ہے اس کے لیے کامیابی و ناکامی کا تصور ہوتا ہے۔ چنانچہ جو علم کی اہلیت رکھتا ہے، لیکن علم نہیں رکھتا ہے تو اس کو جاہل کہا جا سکتا ہے اور جو عدل و انصاف پر قائم رہنے کی اہلیت رکھتا ہے اور عدل پر قائم نہ رہے اس کو ظالم کہا جا سکتا ہے اور مسلوب الارادہ پہاڑ کو نہ ظالم کہا جا سکتا ہے، نہ ہی جاہل۔ انسان چونکہ اپنے ارادے کا خود مالک ہے، لہٰذا وہ اس ارادے کو مثبت سمت میں لے جا سکتا ہے اور منفی سمت کی طرف بھی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس امانت سے کیا مراد ہے۔ یہ امانت وہ چیز ہے جس کے اٹھانے کے نتیجے میں انسان ظالم اور جاہل ہو سکتا ہے اور وہ مکلف (خدا کی طرف سے خیر و شر کا ذمہ دار) قرار پاتا ہے۔ چنانچہ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں میں سے صرف انسان ہی مکلف (ذمہ داری کا حامل) ہے نیز اس کے بعد کی آیت کا سیاق بھی یہ بتاتا ہے کہ اس امانت کے نتیجے میں منافقین کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور مومنین کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ واضح رہے اس ذمہ داری میں توحید و رسالت کے بعد محبت اہل بیت علیہ السلام سرفہرست ہے۔ جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔