آیت 25
 

وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِغَیۡظِہِمۡ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا ؕ وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیۡزًا ﴿ۚ۲۵﴾

۲۵۔ اللہ نے کفار کو اس حال میں پھیر دیا کہ وہ غصے میں (جل رہے) تھے، وہ کوئی فائدہ بھی حاصل نہ کر سکے، لڑائی میں مومنین کے لیے اللہ ہی کافی ہے اور اللہ بڑا طاقت والا، غالب آنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: اللہ نے کافروں کو واپس کیا۔ اللہ نے ایسے اسباب پیدا کیے جن کے نتیجے میں ان حملہ آوروں کو نامراد واپس جانا پڑا۔ وہ اسباب خندق کھدوانا اور سخت ترین سردی میں آندھی چلانا تھے۔

۲۔ بِغَیۡظِہِمۡ: کفار کو غم و غصہ اور غیض و غضب کے ساتھ واپس جانا پڑا۔ ان کے لیے یہ ایک عظیم حادثہ تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لشکر کی تشکیل کی، اس پر زر کثیر خرچ کیا اور پچیس دن تک مدینہ میں بلا نتیجہ رکنا پڑا۔ پھر مدینہ کی خیرات پر قبضے، مسلمانوں کو نابود کرنے کا جو خواب وہ دیکھ رہے تھے اس میں ناکامی دیکھنا پڑی۔

۳۔ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا: کافروں کے غم و غصہ کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس عظیم اہتمام کے ساتھ اتنا بڑا لشکر بنانے کے باوجود کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پائے اور نامراد واپس جانا پڑا۔

۴۔ وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ: جب اللہ تعالیٰ کی کمک و حمایت حاصل ہو گئی تو پھر کسی غیر اللہ کا احتیاج باقی نہیں رہتا۔ اس جگہ قتال اللہ کی طرف سے ہوا اور کافر اللہ کے قتال کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اور مومنین کے لیے کسی قسم کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ متعدد مصادر میں آیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اپنے مصحف میں اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے وکفی اللہ المؤمنین القتال بعلی بن ابی طالب ۔ لڑائی میں مؤمنین کے لیے اللہ کافی ہے علی بن ابی طالب کے ذریعہ۔ ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ذیل آیت، تاریخ دمشق ابن عساکر در حالات امیر المؤمنین، الدر المنشور ذیل آیت۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ذیل آیت۔

۵۔ وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ: اللہ کی قوت اور بالادستی کے مقابلے ان کافروں کی کیا حیثیت ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی کمک حاصل ہونے کی صورت میں دشمن کے سارے حربے ناکام ہو جاتے ہیں: لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا۔۔۔۔


آیت 25