آیت 26
 

وَ اَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ صَیَاصِیۡہِمۡ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَ تَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًا ﴿ۚ۲۶﴾

۲۶۔ اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان (حملہ آوروں) کا ساتھ دیا اللہ نے انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیا کہ تم ان میں سے ایک گروہ کو قتل کرنے لگے اور ایک گروہ کو تم نے قیدی بنا لیا۔

تشریح کلمات

صَیَاصِیۡہِمۡ:

( ص ی ص ) الصیصۃ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ کیا جائے۔ مثلاً قلعہ۔

تفسیر آیات

مدینہ کے جنوب مشرق میں آباد یہود کا قبیلہ جو بنی قریظہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا آباد تھا۔ ان لوگوں نے حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔ ابوسفیان کو جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ خندق سے واپس مدینہ پہنچتے ہیں تو جبرائیل بنی قریظہ کی طرف جانے کا حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔ ظہر کا وقت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ نماز عصر بنی قریظہ کے ہاں پڑھیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں حضرت ابن ام مکتوم کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور علم حضرت علی علیہ السلام کو دیا۔ لشکر اسلام بنی قریظہ کے ہاں پہنچ گیا تو بنی قریظہ قلعہ بن ہو گئے۔ مسلمانوں نے قلعہ کو محاصرے میں لے لیا اور بنی قریظہ کا پچیس دن تک محاصرہ کیا۔ آخر میں بنی قریظہ نے رئیس قبیلۂ اوس، سعد بن معاذ کو حَکم کے طور پر قبول کیا کہ جو وہ فیصلہ کریں ہمیں قبول ہے۔ چونکہ زمان جاہلیت میں اوس اوربنی قریظہ میں معاہدہ تھا۔ یہود کو امید تھی وہ ہمارے ساتھ نرمی برتے گا۔ حضرت سعد نے یہ فیصلہ دیا کہ بنی قریظہ کے جنگجو لوگ قتل کیے جائیں، بچوں اور عورتوں کو اسیر بنایا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے سعد! تم نے یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق کیا ہے۔ چنانچہ بنی قریظہ کے جنگ میں شریک ہونے کے قابل مردوں کو قتل کیا گیا جو سات سے آٹھ سو تک تھے۔

۱۔ وَ اَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ: اللہ تعالیٰ نے ان یہودیوں کو ان کے قلعوں سے نکالا۔ یہ نسبت اللہ کی طرف اس لیے ہے کہ یہودیوں کے قلعوں سے نکلنے میں لوگوں کا کردار ظاہری سبب تھا۔ حقیقتاً ان کے نکلنے کا سبب اللہ نے پیدا فرمایا جو اگلے جملے میں مذکور ہے۔

۲۔ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ: وہ حقیقی سبب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ قلعہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

۳۔ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَ تَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًا: جس گروہ کو قتل کر رہے تھے وہ جنگ میں شریک ہونے کے قابل یہود کے لوگ تھے۔ ان لوگوں نے عہد شکنی کر کے ابوسفیان کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے کا اعلان کیا تھا۔

اہم نکات

۱۔ دشمن کے لیے کمک رساں طاقتوں سے غافل نہیں رہنا چاہیے: ظَاہَرُوۡہُمۡ۔۔۔۔

۲۔ جنگ میں نفسیاتی حربے فیصلہ کن ہوتے ہیں: فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ۔۔۔۔


آیت 26