وَ مَنۡ یَّقۡنُتۡ مِنۡکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تَعۡمَلۡ صَالِحًا نُّؤۡتِہَاۤ اَجۡرَہَا مَرَّتَیۡنِ ۙ وَ اَعۡتَدۡنَا لَہَا رِزۡقًا کَرِیۡمًا﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لیے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿ۚ۳۲﴾

۳۲۔ اے نبی کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو نرم لہجے میں باتیں نہ کرنا، کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔

32۔ الٰہی قدروں کے تحت تقویٰ کے ترازو میں ہر شخص کا وزن کیا جاتا ہے۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج بھی عام عورتوں کی طرح نہیں ہیں۔ اگر تقویٰ اختیار کرتیں اور رسول کی زوجیت کا حق ادا کرتیں۔ اس آیت سے چند نکات مترشح ہوتے ہیں: اول یہ کہ نامحرم مردوں سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دوم یہ کہ کسی فساد میں پڑنے کے لیے اشارے پہلے عورتوں کی طرف سے ملتے ہیں۔ سوم یہ کہ اپنی عصمت کے تحفظ کے لیے بنیادی کردار عورت کو ادا کرنا ہے۔

وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾

۳۳۔ اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

33۔ ایک ہی آیت میں ازواج رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے تنبیہ کا لہجہ ہے، لیکن اہل بیت اطہار علیہ السلام کے لیے تطہیر کا مژدہ۔ انداز تخاطب میں یہ واضح فرق اہل خرد کے لیے دعوت فکر ہے۔ یہاں یُرِیۡدُ اللّٰہُ سے ارادہ تشریعی نہیں، بلکہ ارادہ تکوینی مراد ہے۔ یعنی یہاں اہل بیت علیہ السلام کو پاکیزہ رہنے کا حکم (تشریعی) نہیں دیا جا رہا کیونکہ پاکیزہ رہنے کا حکم تو سب لوگوں کے لیے عام ہے، بلکہ یہاں اہل بیت علیہ السلام کی طہارت کے بارے میں اللہ کے ارادہ تکوینی کا اعلان ہے کہ اللہ نے انہیں پاکیزہ بنا دیا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ انبیاء کو نبوت کا حکم تشریعی نہیں دیتا، بلکہ انہیں عملاً (تکویناً) نبی بنا دیتا ہے، اسی طرح یہاں اہل بیت علیہ السلام کو پاکیزہ رہنے کا حکم (تشریعی) نہیں دیا جا رہا بلکہ ان کی طہارت (تکوینی) کا اعلان ہو رہا ہے۔رہا یہ سوال کہ اہل بیت علیہ السلام کو اللہ نے تکویناً پاکیزہ بنا دیا ہے تو پھر اس میں خود ان کا کیا کمال؟ تو جواب یہ ہے کہ اولاً: یہی سوال انبیاء کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے انہیں نبی بنایا تو اس میں خود ان کا کیا کمال؟ ثانیاً: اہل بیت علیہ السلام کا کمال یہ ہے کہ کائنات میں صرف اہل بیت علیہ السلام ہی ارادہ الہی کے اہل ثابت ہوئے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اہل بیت علیہ السلام سے مراد کون ہیں؟ جواب یہ ہے کہ یہاں ہم قرآن کی تشریح کے لیے سنت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سہارا لیں گے، وگرنہ بقول بعضے، قرآن اس کشتی کی مانند رہ جاتا ہے جس کا ناخدا نہ ہو۔ چنانچہ یہاں ائمہ اہل بیت علیہ السلام کے اجماع کے علاوہ صحیح المسلم باب فضائل اہل بیت النبی 2: 361 طبع حلبی مصر، صحیح الترمذی 5: 31، مسند احمد بن حنبل 1: 330 ط مصر، المستدرک للحاکم 3 :133، احکام القرآن جصاص 5: 230 ط قاہرہ، دیگر بیسیوں مصادر میں ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تصریح فرمائی ہے کہ اس آیت میں اہل بیت علیہ السلام سے مراد علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام ہیں۔ اس حدیث کو اہل سنت نے چالیس طُرُق سے اور شیعہ نے کم سے کم تیس طُرُق سے روایت کیا ہے۔ مجموعاً ستر (70) طُرُق سے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے۔ بہت کم احادیث ہیں جو اس حد تک تواتر سے روایت کی گئی ہوں۔

عورت کی بیرون خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں حصہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں کہ خود حضرت عائشہ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبد اللہ ابن احمد بن حنبل نے زوائد الزھد میں اور ابن المتزر ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے: حضرت جب تلاوت کرتی ہوئی اس آیت: وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا،کیونکہ اس پر اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو ان سے جنگ جمل میں ہوئی تھی۔ (تفہیم القرآن)

وَ اذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیۡفًا خَبِیۡرًا﴿٪۳۴﴾

۳۴۔ اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے، اللہ یقینا بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔

اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَ الۡمُسۡلِمٰتِ وَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الۡخٰشِعِیۡنَ وَ الۡخٰشِعٰتِ وَ الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیۡنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَ الۡحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۵﴾

۳۵۔ یقینا مسلم مرد اور مسلم عورتیں، مومن مرد اور مومنہ عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راستگو مرد اور راستگو عورتیں، صابر مرد اور صابرہ عورتیں، فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظہ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿ؕ۳۶﴾

۳۶۔ اور کسی مؤمن اور مومنہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔

36۔ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے خلاف فتویٰ دینے کو اجتہادی اختلاف قرار دینا اور یہ کہنا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایک مجتہد ہیں نیز نص صریح کے مقابلے میں اجتہاد کرنا، اس آیت کی رو سے ضلال مبین ہے۔

وَ اِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِیۡۤ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِ اَمۡسِکۡ عَلَیۡکَ زَوۡجَکَ وَ اتَّقِ اللّٰہَ وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللّٰہُ مُبۡدِیۡہِ وَ تَخۡشَی النَّاسَ ۚ وَ اللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰہُ ؕ فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا، کہ رہے تھے: اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں، پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہے گا۔

37۔ زید بن حارثہ (رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آزاد کردہ غلام) کا عقد زینب بنت جحش سے ہوا جو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی امیہ بنت عبد المطلب کی صاحبزادی تھیں۔ سماجی اعتبار سے یہ رشتہ نہایت نامناسب سمجھا جاتا تھا۔ زید کی زینب کے ساتھ شادی کامیاب نہ رہی اور طلاق ہو گئی تو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زینب کو اپنے حبالہ عقد میں لے آئے۔ اس پر منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں نے چہ میگوئیاں شروع کیں۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنۡ حَرَجٍ فِیۡمَا فَرَضَ اللّٰہُ لَہٗ ؕ سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقۡدُوۡرَۨا ﴿۫ۙ۳۸﴾

۳۸۔ نبی کے لیے اس (عمل کے انجام دینے) میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جو اللہ نے ان کے لیے مقرر کیا ہے، جو (انبیاء) پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔

38۔ فِیۡمَا فَرَضَ اللّٰہُ : الفرض۔ التعیین و الاسہام، ای فیما عین و قسم لہ ۔ فرض، تعیین اور حصہ مقرر کرنے کے معنوں میں ہے۔ اس کا مطلب مباح کرنا ہوا۔ یعنی جو چیز اللہ نے اپنے نبی کے لیے مباح کی ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ گزشتہ انبیاء میں ایسی مثالیں موجود ہیں، ان کی بھی متعدد ازواج موجود تھیں۔

الَّذِیۡنَ یُبَلِّغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخۡشَوۡنَہٗ وَ لَا یَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا﴿۳۹﴾

۳۹۔ (وہ انبیاء) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔

39۔ چونکہ انبیاء کو علم ہے کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی چیز مؤثر فی الوجود نہیں ہے۔

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

40۔ اس اعتراض کا جواب آ گیا کہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بہو سے شادی کی ہے۔ چونکہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، تو کوئی بیٹا نہیں ہے کہ اس کی زوجہ بہو ہو جائے۔ وہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، ان کا ہر عمل دوسروں کے لیے حجت ہے۔

نسب کے اعتبار سے باپ نہیں۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولایت کے نقطہ نظر سے روحانی باپ تھے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: انا و علی ابوا ھذہ الامۃ ۔ (بحار الانوار16 :95) میں اور علی علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں۔