غزوہ بنی قریظہ کا پس منظر


وَ اَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ صَیَاصِیۡہِمۡ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَ تَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًا ﴿ۚ۲۶﴾

۲۶۔ اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان (حملہ آوروں) کا ساتھ دیا اللہ نے انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیا کہ تم ان میں سے ایک گروہ کو قتل کرنے لگے اور ایک گروہ کو تم نے قیدی بنا لیا۔

26۔ غزوئہ بنی قریظہ کی طرف اشارہ ہے کہ بنی قریظہ کے یہودیوں کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ تھا۔ اس کے باوجود ان لوگوں نے جنگ احزاب میں مشرکین کی حمایت اور کمک کی تھی۔جنگ خندق کی فتح کے بعد حکم خدا سے رسول اللہ ﷺ نے بنی قریظہ کا محاصرہ کیا، پچیس راتوں کے بعد بنی قریظہ کے یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بہت بڑا اسلحہ ذخیرہ کر رکھا تھا یا اس سے پہلے ان یہودیوں نے مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی تھی اور مشرکین کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ بنی قینقاع کے یہودیوں کو عبد اللہ بن ابی (منافق) کے حلیف ہونے کی بنیاد پر اس کے کہنے پر چھوڑ دیا گیا تو یہ یہودی خیبر اور دیگر علاقوں میں جا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے لگے۔ اس لیے ان یہودیوں کو قتل کرنا لازمی ہو گیا تھا۔