آیت 21
 

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔

تشریح کلمات

اُسۡوَۃٌ:

( ا س و ) انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ دوسرے کا منبع ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ: بہتر نمونہ عمل فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ ذات رسولؐ میں ہے۔ کسی صفت کے اعتبار سے نہیں۔ مثلاً یہ نہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شجاعت یا صبر و استقلال میں نمونۂ عمل ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ذات رسولؐ مجموعہ کمالات ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل نہ ہو۔ اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:

i۔ رسولؐ کی عصمت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی عمل نسیان یا خطا کی وجہ سے صادر نہیں ہو سکے گا۔ اگر رسولؐ سے غلطی صادر ہو سکتی ہے تو رسولؐ کی ذات اسوہ نہیں ہے بلکہ دیگر مسلمانوں کی طرح واتبعوھم باحسان نیک چال چلن میں ان کی پیروی کرنا ہو گی۔ لہٰذا جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جائز الخطا مجتہد مانتے ہیں وہ قرآن اور عصمت رسولؐ کے خلاف ہیں۔

ii۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے خلاف جانا کسی صورت جائز نہیں ہے۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے خلاف جانے والوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں دو مجتہدوں میں اختلاف میں کوئی حرج نہیں۔ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں موجود اسوہ حسنہ کے منکر ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک رسولؐ کا فرمان اور آپ ؐ کا عمل حجت نہیں ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ آیت اسوہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے دو حالات کے درمیان فرمایا ہے: ایک طرف مومنین کی آزمائش اور ان کے لیے وَ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا اور منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کی اضطرابی حالت بیان فرمائی ہے۔ اور دوسری طرف آیت ۲۲ میں ان مومنین کا ذکر آیا ہے کہ لشکر ہائے کفر کو دیکھ کر ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔

ان دو متضاد کرداروں کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو اسوہ قرار دیا گیا کہ منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کے لیے اسوۂ رسول ؐایک دلیل و حجت تھی جس سے آپؐ کی رسالت اور اس کی حقانیت واضح طور پر ثابت ہو جاتی ہے۔

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اپنی شجاعت و بہادری میں یکتا ہونے کے باوجود فرماتے ہیں:

کُنَّا اِذَا احْمَرَّ البَأسُ اتَّقَیْنَا بِرَسُولِ اللہِ ص فَلَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِنَّا اَقْرَبَ اِلَی الْعَدُوِّ مِنْہُ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ۔ قصار الکلمات:۹ فصل الغرائب)

جب جنگ شدید ہو جاتی توہم رسول اللہؐ کی پناہ میں جاتے تھے چنانچہ رسول اللہؐ ہم سب سے زیادہ دشمن کے نزدیک ہوتے تھے۔

اور خندق کی کھدائی میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کھدائی کے کام میں برابر کا حصہ لیتے تھے۔ اس طرح مومنین کو اپنے ایمان میں اضافے اور یقین کو مزید پختہ کرنے کا موقع ملا۔

۲۔ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ لوگ اسوہ قرار دیتے ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں جانے پر یقین رکھتے ہیں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو قبول کرنے کی صورت میں نجات ہے۔ اس میں اشارہ ہے ان لوگوں کی طرف جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل میں شک و شبہ کرتے ہیں خواہ جنگ میں شریک معاصرین ہوں یا بعد والے وہ لوگ ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جائز الخطا سمجھتے ہیں۔

۳۔ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا: اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کو وہ لوگ مشعل راہ قرار دیں گے جو خواب غفلت میں نہیں ہیں۔ کثرت سے ذکر خدا کرتے ہیں۔ یہ لوگ بیدار دل ہوتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے تمام گوشے نمونۂ عمل ہیں۔

۲۔ اسوہ کا مطلق ذکر کرنے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جائز الخطا نہیں ہیں۔ اگر جائز الخطا ہوتے تو اللہ بِاِحۡسَانٍ کی طرح کوئی قید عائد فرماتا۔


آیت 21