ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ لِیُذِیۡقَہُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔

41۔ ممکن ہے اشارہ ایران و روم کے درمیان جنگ کی طرف ہو۔ اس وقت کی جنگوں میں سمندری بیڑا بھی استعمال میں لایا جاتا تھا۔ دراصل لوگوں کے اپنے اعمال یعنی ظلم و استحصال کی وجہ سے فساد برپا ہوتے ہیں۔

قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ کَانَ اَکۡثَرُہُمۡ مُّشۡرِکِیۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ کہدیجئے: زمین میں چل پھر کر دیکھ لو گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوا؟ ان میں سے اکثر مشرک تھے۔

فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ الۡقَیِّمِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ یَوۡمَئِذٍ یَّصَّدَّعُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ لہٰذا آپ اپنا رخ محکم دین کی طرف مرکوز رکھیں قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جس کے اللہ کی طرف سے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہے، اس دن لوگ پھوٹ کا شکار ہوں گے ۔

43۔ یَّصَّدَّعُوۡنَ : قیامت کے دن لوگ پھوٹ کا شکار ہوں گے۔ کچھ جنت میں، کچھ جہنم میں جائیں گے۔ یا اس پھوٹ سے مراد ایک دوسرے سے جدا ہونا یا فرار کرنا ہے۔

مَنۡ کَفَرَ فَعَلَیۡہِ کُفۡرُہٗ ۚ وَ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنۡفُسِہِمۡ یَمۡہَدُوۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ جس نے کفر کیا اس کے کفر کا ضرر اسی کے لیے ہے اور جنہوں نے نیک عمل کیا وہ اپنے لیے ہی راہ سدھارتے ہیں،

44۔ اس آیت میں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ یہاں کفر و ایمان کا مقابلہ نہیں ہے، بلکہ کفر اور عمل صالح کا مقابلہ ہے۔ اس سے یہ بات نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان عمل صالح سے عبارت ہے، چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: الایمان عمل کلہ (الکافی 2 ; 33) ایمان مکمل طور پر عمل ہی سے عبارت ہے۔

لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال انجام دینے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے، بے شک وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔

45۔ اپنے فضل سے جزا دے۔ یعنی جزا اور ثواب اللہ کے فضل و کرم کی وجہ سے ملتا ہے، ورنہ ہم اس کے مملوک اور مخلوق ہیں، جو بھی ہم عمل کریں اس سے اللہ کی نعمتوں کا حق ادا نہیں ہوتا، چہ جائیکہ کسی اجر و ثواب کے مستحق ہو جائیں۔

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ یُّرۡسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّ لِیُذِیۡقَکُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَ لِتَجۡرِیَ الۡفُلۡکُ بِاَمۡرِہٖ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ ہواؤں کو بشارت دہندہ بنا کر بھیجتا ہے تاکہ تمہیں اپنی رحمت کا ذائقہ چکھائے اور کشتیاں اس کے حکم سے چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شاید تم شکر کرو۔

46۔ ہوا میں موجود خدا کی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے:٭ہوا کے چلنے سے انسان میں بشاشت آ جاتی ہے اور ہوا اپنے ساتھ بارش کی نوید بھی لے کر آتی ہے۔٭ ہوا رحمت خداوندی سے بہرہ مند کر دیتی ہے۔ زمین سے ہر قسم کی نعمت بارش کی وجہ سے نمودار ہوتی ہے۔٭ہوا کشتیوں کو بھی چلاتی ہے۔٭اسی ہوا اور کشتی کے ذریعے لوگ اللہ کا فضل یعنی روزی تلاش کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ رُسُلًا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ فَجَآءُوۡہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَانۡتَقَمۡنَا مِنَ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا ؕ وَ کَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصۡرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو ان کی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا ہے، سو وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے، پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے بدلہ لیا اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے۔

47۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی جاتی تھی اور انبیاء کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت حق پر قائم تھی۔ طاقتور باطل کے مقابلے میں یہ بے سر و سامان جماعت صرف اللہ کی نصرت کی امید میں استقامت دکھاتی تھی۔ ایسے مومنین کی نصرت اللہ کے ذمے ہے۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَیَبۡسُطُہٗ فِی السَّمَآءِ کَیۡفَ یَشَآءُ وَ یَجۡعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ فَاِذَاۤ اَصَابَ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿ۚ۴۸﴾

۴۸۔ اللہ ہی ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں پھر اسے جیسے اللہ چاہتا ہے آسمان پر پھیلاتا ہے پھر اسے ٹکڑوں کا انبوہ بنا دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے بیچ میں سے بارش نکلنے لگتی ہے پھر اس (بارش) کو اپنے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔

48۔ ہواؤں سے مزید یہ کام بھی لیے جاتے ہیں: ٭یہ بادلوں کو آسمان پر اٹھاتی ہیں۔٭پھر آسمان میں انہیں پھیلا دیتی ہیں۔٭پھر انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کرتی ہیں، پھر بارش کے قطرے مختلف علاقوں میں گرتے ہیں۔

وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمُبۡلِسِیۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ جب کہ اس بارش کے ان پر برسنے سے پہلے وہ ناامید ہو رہے تھے۔

فَانۡظُرۡ اِلٰۤی اٰثٰرِ رَحۡمَتِ اللّٰہِ کَیۡفَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اللہ کی رحمت کے اثرات کا نظارہ کرو کہ وہ زمین کو کس طرح زندہ کر دیتا ہے اس کے مردہ ہونے کے بعد، یقینا وہی مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

50۔ یہ قرآن کا طرز استدلال ہے، جس میں دلیل کے عناصر مشاہدات و محسوسات سے لیے جاتے ہیں، کیونکہ انسان کے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ بارش سے مردہ زمین میں جان آ جاتی ہے، بنابر ایں یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ وہی خالق اسے بھی دوبارہ زندہ کرے گا۔ : وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی فَلَوۡ لَا تَذَکَّرُوۡنَ ۔ (واقعہ:62) تم پہلی پیدائش کو جان چکے ہو، پھر تم عبرت حاصل کیوں نہیں کرتے؟