آیت 41
 

ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ لِیُذِیۡقَہُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔

تفسیر آیات

۱۔ ظَہَرَ الۡفَسَادُ: خشکی اور سمندر میں فساد پھیل گیا۔ یعنی پورے کرۂ ارض کو فساد نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب خشک سالی آتی ہے تو اس صورت میں سمندری حیات میں بھی خلل پیدا ہو جاتا ہے، خشکی میں قحط آ جاتا ہے اور زمین آسمانی برکتوں سے محروم ہو جاتی ہے۔

۲۔ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ: قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ صورت حال لوگوں کے عمل بد کے نتیجے میں پیش آئے گی۔

ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت آج کے انسانوں کے بارے میں گفتگو کر رہی ہے جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے اوزون میں سوراخ ہونے سے کرۂ ارض پر ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور پورا کرۂ ارض ایک ناقابل تلافی فساد کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔

۳۔ لِیُذِیۡقَہُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا: تاکہ لوگوں کو اپنی بداعمالی کی سزا مل جائے اور ان کے ضمیر اور وجدان کو بیدار کیا جائے۔

۴۔ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ: تاکہ وہ اس جرم سے باز آجائیں جس سے فساد پھیلتا ہے۔

کہا جاتا ہے آیت کا اشارہ اس قحط کی طرف ہے جس سے مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی وجہ سے دوچار ہو گئے تھے۔

یہ خیال بھی ظاہر کیاجاتا ہے کہ ممکن ہے اشارہ ایران و روم کے درمیان جنگ کی طرف ہو۔ اس وقت جنگوں میں سمندری بیڑا بھی استعمال میں لایا جاتا تھا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

حیاۃ دواب البحر بالمطر فاذا کف المطر ظہر الفساد فی البر و البحر و ذلک اذا کثرت الذنوب والمعاصی ۔ (بحار الانوار ۷۰: ۳۴۹)

خشکی اور سمندر میں جانداروں کی زندگی بارش سے وابستہ ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو خشکی اور سمندر میں فساد پھیلتا ہے۔ جب انسانوں کے گناہ زیادہ ہو جاتے ہیں، بارش بندہو جاتی ہے۔


آیت 41