استقامت، وسیلہ نصرت الٰہی


وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ رُسُلًا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ فَجَآءُوۡہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَانۡتَقَمۡنَا مِنَ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا ؕ وَ کَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصۡرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو ان کی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا ہے، سو وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے، پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے بدلہ لیا اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے۔

47۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی جاتی تھی اور انبیاء کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت حق پر قائم تھی۔ طاقتور باطل کے مقابلے میں یہ بے سر و سامان جماعت صرف اللہ کی نصرت کی امید میں استقامت دکھاتی تھی۔ ایسے مومنین کی نصرت اللہ کے ذمے ہے۔