آیت 47
 

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ رُسُلًا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ فَجَآءُوۡہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَانۡتَقَمۡنَا مِنَ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا ؕ وَ کَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصۡرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو ان کی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا ہے، سو وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے، پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے بدلہ لیا اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ رُسُلًا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسلی و تقویت کے لیے تاریخ انبیاء کے وہ اوراق سامنے رکھے جا رہے ہیں جو ان کی تحریک سے متعلق ہیں۔ وہ درج ذیل ہیں:

الف: ہم نے آپ کو آپ کی قوم کی طرف بھیجا ہے تو یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ آپ سلسلہ انبیاء علیہم السلام کے رسول ہیں۔

ب: فَجَآءُوۡہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ: سابقہ انبیاء علیہم السلام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح اپنی رسالت کے ثبوت کے لیے واضح شواہد لے کر آئے تھے مگر لوگوں نے ان شواہد کو مسترد کر دیا۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ نے جو شواہد پیش کیے ہیں انہیں ان لوگوں نے مسترد کر دیا۔

ج: فَانۡتَقَمۡنَا مِنَ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا: ان شواہد کو مسترد کر کے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کرنے والے مجرمین سے ہم نے انتقام لیا ہے اس میں یہ نوید ہے کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کے معاصر مجرم لوگوں سے بھی ہم انتقام لیں گے۔

د: وَ کَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصۡرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: ان مجرمین کے درمیان موجود مؤمنین کی چھوٹی سی جماعت کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے۔ قابل توجہ ہے کہ مؤمنین کی نصرت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے ایک حق قرار دیا ہے جو فتح و نصرت کا صرف وعدہ نہیں بلکہ ضمانت ہے۔


آیت 47