اَلَّا تَعۡلُوۡا عَلَیَّ وَ اۡتُوۡنِیۡ مُسۡلِمِیۡنَ﴿٪۳۱﴾

۳۱۔ تم میرے مقابلے میں بڑائی مت کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔

31۔ یہ خط اپنے انداز ارسال، انداز کلام اور مضمون کے اعتبار سے غیر معمولی حیثیت کا حامل تھا۔ انداز ارسال: ایک پرندے کے ذریعے۔ انداز کلام: بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ سے شروع ہوتا ہے جو اس معاشرے کی ثقافت سے بالکل مختلف اور نا آشنا انداز کلام ہے۔ مضمون میں ایک دعوت ہے کہ ایک قانونی حکومت کے مقابلے میں ایک باطل نظام کو بڑائی اور سرکشی کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا فرماں بردار یا مسلم ہو کر میرے سامنے حاضر ہو جاؤ۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا فرماں بردار ہونے میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں: فرماں برداری بھی اور اسلام بھی۔

قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ۚ مَا کُنۡتُ قَاطِعَۃً اَمۡرًا حَتّٰی تَشۡہَدُوۡنِ﴿۳۲﴾

۳۲۔ ملکہ نے کہا: اے اہل دربار! میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو، میں تمہاری غیر موجودگی میں کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کیا کرتی۔

32۔ شہنشاہی نظام ہونے کے باوجود وہ استبدادی نہ تھا، بلکہ سربراہان مملکت اپنے فیصلے باہمی مشورے سے طے کیا کرتے تھے۔

قَالُوۡا نَحۡنُ اُولُوۡا قُوَّۃٍ وَّ اُولُوۡا بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ ۬ۙ وَّ الۡاَمۡرُ اِلَیۡکِ فَانۡظُرِیۡ مَاذَا تَاۡمُرِیۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ انہوں نے کہا: ہم طاقتور اور شدید جنگجو ہیں تاہم فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم کرنا چاہیے۔

قَالَتۡ اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡہَا وَ جَعَلُوۡۤا اَعِزَّۃَ اَہۡلِہَاۤ اَذِلَّۃً ۚ وَ کَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ ملکہ نے کہا: بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کرتے ہیں اور اس کے عزت داروں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح کریں گے۔

34۔ فاتح قوم جب فتح کے نشے میں چور ہوتی ہے تو اپنی زیر نگیں قوم کی حرمت و عزت کو لوٹ لیتی ہے۔ البتہ اسلامی فاتحین کے بارے میں گوسٹاف لوبون اپنی کتاب حضارۃ العرب میں لکھتے ہیں: چشم تاریخ نے عربوں کی طرح کسی انصاف پسند اور رحمدل فاتح کو نہیں دیکھا۔

وَ اِنِّیۡ مُرۡسِلَۃٌ اِلَیۡہِمۡ بِہَدِیَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ یَرۡجِعُ الۡمُرۡسَلُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج دیتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ایلچی کیا (جواب) لے کر واپس آتے ہیں۔

35۔ یعنی اگر وہ اس ہدیے سے نرم پڑ جائے تو وہ مال و دولت کا ہی بندہ ہو گا اور اس سے اسی بنیاد پر نپٹیں گے، وگرنہ مسئلہ ایمان و عقیدہ کا ہو گا، جس کے سامنے مال و منال کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔

فَلَمَّا جَآءَ سُلَیۡمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوۡنَنِ بِمَالٍ ۫ فَمَاۤ اٰتٰىنِۦَ اللّٰہُ خَیۡرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىکُمۡ ۚ بَلۡ اَنۡتُمۡ بِہَدِیَّتِکُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔پس جب وہ سلیمان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: کیا تم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے جب کہ تمہیں اپنے ہدیے پر بڑا ناز ہے۔

36۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے تحائف بڑی حقارت کے ساتھ واپس کیے تو ملکہ سبا پر یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ مسئلہ کشور کشائی اور مال و دولت کا نہیں ہے۔

اِرۡجِعۡ اِلَیۡہِمۡ فَلَنَاۡتِیَنَّہُمۡ بِجُنُوۡدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمۡ بِہَا وَ لَنُخۡرِجَنَّہُمۡ مِّنۡہَاۤ اَذِلَّۃً وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ (اے ایلچی) تو انہیں کی طرف واپس پلٹ جا، ہم ان کے پاس ایسے لشکر لے کر ضرور آئیں گے جن کا وہ مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ہم انہیں وہاں سے ذلت کے ساتھ ضرور نکال دیں گے اور وہ خوار بھی ہوں گے۔

قَالَ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَیُّکُمۡ یَاۡتِیۡنِیۡ بِعَرۡشِہَا قَبۡلَ اَنۡ یَّاۡتُوۡنِیۡ مُسۡلِمِیۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ سلیمان نے کہا: اے اہل دربار! تم میں سے کون ہے جو ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آئیں؟

38۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ سوال بتاتا ہے کہ ان کے درباریوں میں ایسے لوگ موجود تھے جو اس قسم کے کارنامے انجام دے سکتے تھے۔

قَالَ عِفۡرِیۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ ۚ وَ اِنِّیۡ عَلَیۡہِ لَقَوِیٌّ اَمِیۡنٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ جنوں میں سے ایک عیار نے کہا: میں اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور میں یہ کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہوں، امین بھی ہوں۔

39۔ بیت المقدس سے ملک سبا کا فاصلہ ڈیڑھ ہزار میل سے کم نہ تھا۔ کسی بشری طاقت کے لیے ممکن نہ تھا کہ چند گھنٹوں میں یہ کام انجام دے، لہٰذا جن سے مراد کوئی بشر نہیں، جیسا کہ بعض عقلیت پسند لکھتے ہیں۔

قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ یَّرۡتَدَّ اِلَیۡکَ طَرۡفُکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّیۡ ۟ۖ لِیَبۡلُوَنِیۡۤ ءَاَشۡکُرُ اَمۡ اَکۡفُرُ ؕ وَ مَنۡ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیۡ غَنِیٌّ کَرِیۡمٌ﴿۴۰﴾

۴۰۔ جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفر ان اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب یقینا بے نیاز اور صاحب کرم ہے۔

40۔ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پلک جھپکنے کی دیر میں کیسے ممکن ہوا کہ کوئی ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے سے یہ تخت حاضر کرے؟ ایسا تو آج کے جوہری دور میں بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ سوال اللہ کی کُنۡ فَیَکُوۡنِی طاقت کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سائنسی نقطہ نظر سے بھی درست نہیں ہے، کیونکہ بقول آئن سٹائن: ”انسان کو مکان و زمان میں محدود سمجھنا ایک مفروضہ ہے“۔ نیز نظریہ اضافت کے لحاظ سے زمان ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے کے دس منٹ ساکن لوگوں کے سینکڑوں سالوں کے برابر ہوتے ہیں، جیسا کہ مسئلہ معراج کی بحث میں ہم نے بیان کیا ہے، لیکن ہم اس مسئلے کی توجیہ نظریہ اضافت وغیرہ سے نہیں کرتے۔ قرآن کی صراحت موجود ہے کہ یہ قدرت جس شخص کے پاس تھی اس کی بنیاد علم تھا اور اس علم کا مأخذ الۡکِتٰبُ تھا۔ اگرچہ ہم کو اس علم اور الۡکِتٰبُ کی نوعیت کا علم نہیں ہے، تاہم اس آیت میں علم کی طاقت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اس شخص نے اپنے دعویٰ کو جامۂ عمل پہناتے ہوئے چشم زدن میں اس عظیم تخت کو حاضر کر دیا۔ اس علمی کارنامے کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کا فضل قرار دیا، تخت کے حصول کو نہیں۔ انسان کو اب تک دور سے آواز اور تصاویر چشم زدن میں حاضر کرنے کا طریقہ آ گیا ہے۔ اجسام کو حاضر کرنے کا طریقہ ابھی نہیں آیا۔ آیت سے معلوم ہوا کہ اس علم کا وجود ہے جس سے اجسام کو دور سے چشم زدن میں حاضر کرنا ممکن ہے۔