آیت 39
 

قَالَ عِفۡرِیۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ ۚ وَ اِنِّیۡ عَلَیۡہِ لَقَوِیٌّ اَمِیۡنٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ جنوں میں سے ایک عیار نے کہا: میں اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور میں یہ کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہوں، امین بھی ہوں۔

تشریح کلمات

عِفۡرِیۡتٌ:

اصل میں سرکش جن کو کہتے ہیں۔ پھر ناقابل تسخیر طاقتور کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔

تفسیر آیات

بیت المقدس سے ملک سبا کا فاصلہ ڈیڑھ ہزار میل سے کم نہ تھا۔ کسی بشری طاقت کے لیے ممکن نہ تھا کہ چند گھنٹوں میں یہ کام انجام دے لہٰذا جن سے مراد کوئی بشر نہیں جیسا کہ بعض عقلیت پسند لکھتے ہیں۔

قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ: آپ کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے تخت پیش کروں گا۔ سلیمان علیہ السلام دربار میں چند گھنٹے ہی بیٹھ سکتے ہیں۔

وَ اِنِّیۡ عَلَیۡہِ لَقَوِیٌّ: اس جن کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ یہ کام میں کر سکتا ہوں۔ اس کام کے لیے مطلوبہ قوت میرے پاس ہے۔

اَمِیۡنٌ: جن ہونے کے اعتبار سے ایک سوال جو ذہن میں آتا ہے اس کا بھی اس جن نے جواب دے دیا کہ میں امین ہوں۔ اس تخت کو بغیر کسی تصرف کے آپ کے پاس پہنچا دوں گا۔


آیت 39