نور کی رفتار سے حمل و نقل


قَالَ عِفۡرِیۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ ۚ وَ اِنِّیۡ عَلَیۡہِ لَقَوِیٌّ اَمِیۡنٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ جنوں میں سے ایک عیار نے کہا: میں اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور میں یہ کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہوں، امین بھی ہوں۔

39۔ بیت المقدس سے ملک سبا کا فاصلہ ڈیڑھ ہزار میل سے کم نہ تھا۔ کسی بشری طاقت کے لیے ممکن نہ تھا کہ چند گھنٹوں میں یہ کام انجام دے، لہٰذا جن سے مراد کوئی بشر نہیں، جیسا کہ بعض عقلیت پسند لکھتے ہیں۔

قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ یَّرۡتَدَّ اِلَیۡکَ طَرۡفُکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّیۡ ۟ۖ لِیَبۡلُوَنِیۡۤ ءَاَشۡکُرُ اَمۡ اَکۡفُرُ ؕ وَ مَنۡ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیۡ غَنِیٌّ کَرِیۡمٌ﴿۴۰﴾

۴۰۔ جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفر ان اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب یقینا بے نیاز اور صاحب کرم ہے۔

40۔ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پلک جھپکنے کی دیر میں کیسے ممکن ہوا کہ کوئی ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے سے یہ تخت حاضر کرے؟ ایسا تو آج کے جوہری دور میں بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ سوال اللہ کی کُنۡ فَیَکُوۡنِی طاقت کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سائنسی نقطہ نظر سے بھی درست نہیں ہے، کیونکہ بقول آئن سٹائن: ”انسان کو مکان و زمان میں محدود سمجھنا ایک مفروضہ ہے“۔ نیز نظریہ اضافت کے لحاظ سے زمان ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے کے دس منٹ ساکن لوگوں کے سینکڑوں سالوں کے برابر ہوتے ہیں، جیسا کہ مسئلہ معراج کی بحث میں ہم نے بیان کیا ہے، لیکن ہم اس مسئلے کی توجیہ نظریہ اضافت وغیرہ سے نہیں کرتے۔ قرآن کی صراحت موجود ہے کہ یہ قدرت جس شخص کے پاس تھی اس کی بنیاد علم تھا اور اس علم کا مأخذ الۡکِتٰبُ تھا۔ اگرچہ ہم کو اس علم اور الۡکِتٰبُ کی نوعیت کا علم نہیں ہے، تاہم اس آیت میں علم کی طاقت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اس شخص نے اپنے دعویٰ کو جامۂ عمل پہناتے ہوئے چشم زدن میں اس عظیم تخت کو حاضر کر دیا۔ اس علمی کارنامے کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کا فضل قرار دیا، تخت کے حصول کو نہیں۔ انسان کو اب تک دور سے آواز اور تصاویر چشم زدن میں حاضر کرنے کا طریقہ آ گیا ہے۔ اجسام کو حاضر کرنے کا طریقہ ابھی نہیں آیا۔ آیت سے معلوم ہوا کہ اس علم کا وجود ہے جس سے اجسام کو دور سے چشم زدن میں حاضر کرنا ممکن ہے۔