آیت 32
 

قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ۚ مَا کُنۡتُ قَاطِعَۃً اَمۡرًا حَتّٰی تَشۡہَدُوۡنِ﴿۳۲﴾

۳۲۔ ملکہ نے کہا: اے اہل دربار! میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو، میں تمہاری غیر موجودگی میں کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کیا کرتی۔

تفسیر آیات

۱۔ اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ: مجھے رائے دو اس امر کے بارے میں جو مجھے پیش آیا ہے۔ یہ امرملک پر بیرونی حملے کا خطرہ ہے۔ اپنے زمانے کی سب سے بڑی طاقت کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے۔

۲۔ مَا کُنۡتُ قَاطِعَۃً اَمۡرًا حَتّٰی تَشۡہَدُوۡنِ: تمہاری غیر موجودگی میں کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کیا کرتی۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملکہ فہم و فراست کی مالکہ تھی۔ نظام استبدادی ہونے کے باوجود طریقہ کار شورائی و جمہوری تھا۔ اس عمل کے مستحسن ہونے کی وجہ سے قرآن نے اس بات کا ذکر کیا۔ کسی غیر معمولی واقعہ کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل رائے لوگوں سے مشورہ لینا ہر عاقل کے نزدیک ایک مستحسن عمل ہے اور یہ بات کسی مذہب و شریعت سے مربوط نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ دوسروں کی عقلی قوت سے فائدہ اٹھانا عقلی قوت کی علامت ہے۔


آیت 32