آیت 33
 

قَالُوۡا نَحۡنُ اُولُوۡا قُوَّۃٍ وَّ اُولُوۡا بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ ۬ۙ وَّ الۡاَمۡرُ اِلَیۡکِ فَانۡظُرِیۡ مَاذَا تَاۡمُرِیۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ انہوں نے کہا: ہم طاقتور اور شدید جنگجو ہیں تاہم فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم کرنا چاہیے۔

تفسیر آیات

۱۔ نَحۡنُ اُولُوۡا قُوَّۃٍ وَّ اُولُوۡا بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ: درباریوں نے متوقع جنگ کے لیے ضرورت کی دو اہم چیزوں کا ذکر کیا۔ وہ عسکری طاقت و قوت اور حربی مہارت ہیں۔ درباریوں نے کہا: یہ دونوں چیزیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ عسکری طاقت اُولُوۡا قُوَّۃٍ اور حربی مہارت وَّ اُولُوۡا بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ کے ذریعے ہم اس حملے کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

درباریوں کا ایک مزاج ہوا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی رعونت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حقائق کے ادراک میں رعونت و اقتدار حائل رہتے ہیں اور بادشاہ بھی عموماً درباریوں کے اس مزاج کا شکار رہتے ہیں لیکن یہاں درباری مرد اور بادشاہ عورت ہے۔ عورت عموماً جنگجو نہیں، امن پسند ہوتی ہے۔ درباری اس بات سے واقف تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے درباری مزاج کے مطابق اپنی رعونت کا بھی مظاہرہ کیا اور ساتھ ملکہ، عورت کے امن پسند مزاج کا بھی لحاظ رکھا اور کہا: وَّ الۡاَمۡرُ اِلَیۡکِ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ورنہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ درباری بادشاہ سے درخواست کریں کہ ہمیں اجازت دیں کہ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔


آیت 33