بلقیس کے تحائف اور رد عمل


وَ اِنِّیۡ مُرۡسِلَۃٌ اِلَیۡہِمۡ بِہَدِیَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ یَرۡجِعُ الۡمُرۡسَلُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج دیتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ایلچی کیا (جواب) لے کر واپس آتے ہیں۔

35۔ یعنی اگر وہ اس ہدیے سے نرم پڑ جائے تو وہ مال و دولت کا ہی بندہ ہو گا اور اس سے اسی بنیاد پر نپٹیں گے، وگرنہ مسئلہ ایمان و عقیدہ کا ہو گا، جس کے سامنے مال و منال کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔

فَلَمَّا جَآءَ سُلَیۡمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوۡنَنِ بِمَالٍ ۫ فَمَاۤ اٰتٰىنِۦَ اللّٰہُ خَیۡرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىکُمۡ ۚ بَلۡ اَنۡتُمۡ بِہَدِیَّتِکُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔پس جب وہ سلیمان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: کیا تم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے جب کہ تمہیں اپنے ہدیے پر بڑا ناز ہے۔

36۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے تحائف بڑی حقارت کے ساتھ واپس کیے تو ملکہ سبا پر یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ مسئلہ کشور کشائی اور مال و دولت کا نہیں ہے۔