وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہَا وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَنَافِعُ کَثِیۡرَۃٌ وَّ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ اور تمہارے لیے جانوروں میں یقینا ایک درس عبرت ہے، ان کے شکم سے ہم تمہیں (دودھ)پلاتے ہیں اور ان میں تمہارے لیے (دیگر) بہت سے فوائد ہیں اور ان میں سے کچھ کو تم کھاتے بھی ہو۔

21۔ حیوانات انسان کے لیے مسخر ہیں۔ جیسا کہ کائنات کی تمام مادی اشیاء انسان کی خدمت کے لیے مسخر ہیں۔ چنانچہ حیوانات سے انسان دودھ، گوشت، اون، سواری وغیرہ کے فوائد حاصل کرتے ہیں۔

وَ عَلَیۡہَا وَ عَلَی الۡفُلۡکِ تُحۡمَلُوۡنَ﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ اور ان جانوروں پر اور کشتیوں پر تم سوار کیے جاتے ہو۔

22۔ پانی کی سنگینی، کشتی کی خفت اور ہوا کی روانی، ان تین چیزوں کی ہم آہنگی سے پانی پر کشتی رانی ممکن ہوئی۔ ان عناصر کا باہمی ربط بتاتا ہے کہ اس کی تخلیق کے پیچھے ایک باشعور ذات کا ارادہ کارفرما ہے۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، پس نوح نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم بچتے نہیں ہو؟

فَقَالَ الۡمَلَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۙ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتَفَضَّلَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَنۡزَلَ مَلٰٓئِکَۃً ۚۖ مَّا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِیۡۤ اٰبَآئِنَا الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۚ۲۴﴾

۲۴۔ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، جو تم پر اپنی بڑائی چاہتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا، ہم نے اپنے پہلے باپ دادا سے یہ بات کبھی نہیں سنی۔

24۔ وہ اس دعوت کو ذاتی مفاد پر محمول کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام ان پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ اس دعوت کو اپنی ظرفیت کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

اِنۡ ہُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِہٖ جِنَّۃٌ فَتَرَبَّصُوۡا بِہٖ حَتّٰی حِیۡنٍ﴿۲۵﴾

۲۵۔ بس یہ ایک ایسا شخص ہے جس پر جنون کا عارضہ ہوا ہے لہٰذا کچھ دیر انتظار کرو۔

قَالَ رَبِّ انۡصُرۡنِیۡ بِمَا کَذَّبُوۡنِ﴿۲۶﴾

۲۶۔ نوح نے کہا: اے میرے رب! انہوں نے جو میری تکذیب کی ہے ان پر توُ میری مدد فرما۔

فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ اَنِ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ فَاسۡلُکۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ مِنۡہُمۡ ۚ وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ پس ہم نے نوح کی طرف وحی کی (اور کہا) ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ، پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابلنا شروع کر دے تو ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑوں میں سے دو دو سوار کرو اور اپنے گھر والوں کو بھی، ان میں سے سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں پہلے فیصلہ صادر ہو چکا ہے اور (اے نوح) ان ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا کہ یہ اب یقینا غرق ہونے والے ہیں۔

27۔ نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دیا کہ طوفان سے نجات اللہ کی طرف سے ہو گی، مگر ہاتھ پر ہاتھ دھرنے والوں کے لیے نہیں، اس کے لیے اپنے ممکنہ وسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش شرط ہے۔ فَارَ التَّنُّوۡرُ : آتش کی جگہ سے پانی کا ابلنا خود ایک معجزہ ہے۔

مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ : جوڑوں میں سے دو، دو تاکہ نسلوں کو تحفظ اور بقا ملے۔ اس سے معلوم ہوا انسان کے کام آنے والے جانوروں کو تحفظ دینا چاہیے۔ حدیث میں آیا ہے: حرمۃ مال المسلم کحرمۃ دمہ۔ (عوالی اللألی 3: 473) مسلمان کے مال کو وہی تحفظ حاصل ہے جو اس کے خون کو ہے۔

فَاِذَا اسۡتَوَیۡتَ اَنۡتَ وَ مَنۡ مَّعَکَ عَلَی الۡفُلۡکِ فَقُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ نَجّٰنَا مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔اور جب آپ اور آپ کے ساتھی کشتی پر سوار ہو جائیں تو کہیں: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دلا دی۔

وَ قُلۡ رَّبِّ اَنۡزِلۡنِیۡ مُنۡزَلًا مُّبٰرَکًا وَّ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡمُنۡزِلِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور کہیں:میرے رب! ہمیں بابرکت جگہ اتارنا اور تو بہترین جگہ دینے والا ہے۔

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنۡ کُنَّا لَمُبۡتَلِیۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اس (واقعے) میں یقینا نشانیاں ہیں اور ہم آزمائش کر گزریں گے ۔