فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ اَنِ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ فَاسۡلُکۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ مِنۡہُمۡ ۚ وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ پس ہم نے نوح کی طرف وحی کی (اور کہا) ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ، پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابلنا شروع کر دے تو ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑوں میں سے دو دو سوار کرو اور اپنے گھر والوں کو بھی، ان میں سے سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں پہلے فیصلہ صادر ہو چکا ہے اور (اے نوح) ان ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا کہ یہ اب یقینا غرق ہونے والے ہیں۔

27۔ نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دیا کہ طوفان سے نجات اللہ کی طرف سے ہو گی، مگر ہاتھ پر ہاتھ دھرنے والوں کے لیے نہیں، اس کے لیے اپنے ممکنہ وسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش شرط ہے۔ فَارَ التَّنُّوۡرُ : آتش کی جگہ سے پانی کا ابلنا خود ایک معجزہ ہے۔

مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ : جوڑوں میں سے دو، دو تاکہ نسلوں کو تحفظ اور بقا ملے۔ اس سے معلوم ہوا انسان کے کام آنے والے جانوروں کو تحفظ دینا چاہیے۔ حدیث میں آیا ہے: حرمۃ مال المسلم کحرمۃ دمہ۔ (عوالی اللألی 3: 473) مسلمان کے مال کو وہی تحفظ حاصل ہے جو اس کے خون کو ہے۔