ثُمَّ اَنۡشَاۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ قَرۡنًا اٰخَرِیۡنَ ﴿ۚ۳۱﴾

۳۱۔ پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور قوم کو پیدا کیا۔

31۔ اس قوم سے مراد قوم عاد ہی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ سورئہ اعراف آیت 69 میں عاد کے بارے میں فرمایا: وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوۡحٍ ۔

فَاَرۡسَلۡنَا فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿٪۳۲﴾

۳۲۔ پھر خود انہی میں سے ایک رسول ان میں مبعوث کیا، ( جس کی دعوت یہ تھی کہ لوگو) اللہ کی بندگی کرو تمہارے لیے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے کیا تم بچنا نہیں چاہتے ؟

وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَتۡرَفۡنٰہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۙ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۙ یَاۡکُلُ مِمَّا تَاۡکُلُوۡنَ مِنۡہُ وَ یَشۡرَبُ مِمَّا تَشۡرَبُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۳﴾

۳۳۔ اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے جو آخرت کی ملاقات کی تکذیب کرتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیاوی زندگی میں آسائش فراہم کر رکھی تھی کہا : یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔

وَ لَئِنۡ اَطَعۡتُمۡ بَشَرًا مِّثۡلَکُمۡ اِنَّکُمۡ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اور اگر تم نے اپنے جیسے کسی بشر کی اطاعت کی تو بے شک تم خسارے میں رہو گے۔

34۔ مراعات یافتہ لوگ ہمیشہ تمام مراعات کو اپنا فطری حق تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا ان مراعات کے منافی ہر فکر کو رد کرنے میں یہ لوگ پیش پیش ہوتے تھے۔ دوسری بات وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انسان الہٰی رسالت کا اہل نہیں ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جو شخص اس رسالت کا مدعی ہے وہ کوئی نرالی مخلوق تو ہے نہیں کہ ہمارے اور اللہ کے درمیان واسطہ بن جائے۔ اس کے پاس وہی وسائل ہیں جو ہمارے پاس ہیں۔ اس کے پاس کان ہیں تو ہمارے پاس بھی کان ہیں۔ وہ وحی کو سن لیتا ہے، ہم کیوں نہیں سنتے۔ حتیٰ کہ اس کی ضروریات زندگی بھی ہماری طرح ہیں، جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں یہ رسول بھی کھاتا پیتا ہے۔

قرآن نے متعدد مقامات پر اس کا جواب دیا ہے۔ سورہ انعام آیت 9 میں فرمایا: وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلۡنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّا یَلۡبِسُوۡنَ﴿﴾ ۔ اگر ہم اس رسول کو فرشتہ قرار دیتے تو مردانہ شکل میں قرار دیتے اور ہم انہیں اسی شبہ میں مبتلا کرتے جس میں وہ اب ہیں۔ کیونکہ اس فرشتہ رسول کو بھی نمونہ عمل بننا پڑتا کہ لوگ اس کی اطاعت کریں۔ اس طرح ساری بشری خصوصیات اس فرشتے میں موجود ہوتیں تو اس صورت میں تم نے پھر یہی کہنا تھا: یہ تو ہم جیسا بشر ہے۔

اَیَعِدُکُمۡ اَنَّکُمۡ اِذَا مِتُّمۡ وَ کُنۡتُمۡ تُرَابًا وَّ عِظَامًا اَنَّکُمۡ مُّخۡرَجُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۵﴾

۳۵۔ کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور تم خاک اور ہڈی ہو جاؤ گے تب تم نکالے جاؤ گے ؟

ہَیۡہَاتَ ہَیۡہَاتَ لِمَا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۶﴾

۳۶۔ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے بعید ہی بعید ہے۔

اِنۡ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا نَحۡنُ بِمَبۡعُوۡثِیۡنَ ﴿۪ۙ۳۷﴾

۳۷۔ بس یہی دنیاوی زندگی ہے جس میں ہمیں مرنا اور جینا ہے اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔

اِنۡ ہُوَ اِلَّا رَجُلُۨ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا وَّ مَا نَحۡنُ لَہٗ بِمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ یہ تو بس ایسا آدمی ہے جو اللہ پر جھوٹی نسبت دیتا ہے اور ہم اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

قَالَ رَبِّ انۡصُرۡنِیۡ بِمَا کَذَّبُوۡنِ﴿۳۹﴾

۳۹۔ عرض کیا: میرے رب! ان لوگوں کی تکذیب پر میری نصرت فرما۔

قَالَ عَمَّا قَلِیۡلٍ لَّیُصۡبِحُنَّ نٰدِمِیۡنَ ﴿ۚ۴۰﴾

۴۰۔ اللہ نے فرمایا: تھوڑے وقت میں یہ لوگ پشیمان ہو جائیں گے۔