آیت 27
 

فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ اَنِ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ فَاسۡلُکۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ مِنۡہُمۡ ۚ وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ پس ہم نے نوح کی طرف وحی کی (اور کہا) ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ، پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابلنا شروع کر دے تو ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑوں میں سے دو دو سوار کرو اور اپنے گھر والوں کو بھی، ان میں سے سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں پہلے فیصلہ صادر ہو چکا ہے اور (اے نوح) ان ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا کہ یہ اب یقینا غرق ہونے والے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ بِاَعۡیُنِنَا: ہماری نگاہوں کے سامنے یعنی ہماری نگرانی میں کشتی بنائیں۔ اس کی ساخت، اس کا حجم اور اس کی دیگر خصوصیات کا اندازہ کسی ایسے انسان سے نہیں ہو سکتا جسے زندگی میں اس قسم کا کوئی تجربہ نہ ہو۔ نہ اس طوفان کا اندازہ ہے جو آنے والا ہے۔

۲۔ وَ وَحۡیِنَا: ہماری تعلیم کے مطابق بنائیں۔ یہ جملہ بِاَعۡیُنِنَا کے لیے تاکید ہے۔

۳۔ وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ: تنور کا ابلنا حکم الٰہی کی ایک علامت کے طور پر ہو سکتا ہے کہ جب تنور میں پانی ابلنے لگ جائے تو سمجھ جائیں کہ طوفان آنے والا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ تنور کا ابلنا ہی طوفان تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو تنور کے ابلنے کے بعد سب لوگوں اور جانوروں میں سے دو دو جوڑوں کو سوار کرنے کی مہلت کیسے مل جاتی۔ لہٰذا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ کے دیگر معانی کی طرف جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

۴۔ فَاسۡلُکۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ: سورہ ہود میں اس کی تشریح ہو گئی ہے۔

۵۔ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ: ان لوگوں کو سوار نہ کرو جن کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے۔

۶۔ وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ: ظالموں کے بارے میں بات تک کرنے سے منع فرمایا چہ جائے کہ ان کی نجات کے لیے دعا کی جائے۔ اس سے اس بات کی تاکید ہو گئی کہ ان کی سفارش کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ جو لوگ ناقابل اہدایت ہیں انہیں نجات کا ذریعہ فراہم نہیں کیا جاتا: اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ ۔۔۔۔

۲۔ منکرین کے لیے سفارش کی اجازت نہیں ہے: وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ ۔۔۔۔


آیت 27