آیت 24
 

فَقَالَ الۡمَلَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۙ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتَفَضَّلَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَنۡزَلَ مَلٰٓئِکَۃً ۚۖ مَّا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِیۡۤ اٰبَآئِنَا الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۚ۲۴﴾

۲۴۔ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، جو تم پر اپنی بڑائی چاہتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا، ہم نے اپنے پہلے باپ دادا سے یہ بات کبھی نہیں سنی۔

تفسیر آیات

۱۔ فَقَالَ الۡمَلَؤُا: ہمیشہ مراعات یافتہ طبقہ انبیاء % اور دیگر اصلاحی تحریکوں کا مخالف رہا ہے۔

۲۔ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ: تقریباً سب منکرین رسالت کا یہی موقف رہا ہے کہ بشر، انسان اللہ تعالیٰ کی سفارت کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اللہ کی طرف سے اس مقصد کے لیے کوئی فرشتہ ہی ہو سکتا ہے۔ ملاحظہ ہو: اعراف: ۶۳، یونس:۲، ہود:۲۷ وغیرہ۔

۳۔ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتَفَضَّلَ عَلَیۡکُمۡ: اسی مراعات یافتہ طبقے کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ لاحق رہتا ہے کہ یہ شخص اللہ کی طرف سے رسول ہونے کا دعویٰ اس لیے کرتا ہے کہ اسے ہم پر برتری حاصل ہو جائے۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے کسی اور شخص یا قبیلے کو ہم پر برتری حاصل رہے۔

۴۔ مَّا سَمِعۡنَا بِہٰذَا: اس توحید کی بات تو صرف تم کر رہے ہو۔ ہمارے باپ دادا تو بہت سے معبودوں کو مانتے رہے ہیں۔ بِہٰذَا رسالت کی طرف اشارہ نہیں ہے چونکہ نوح علیہ السلام سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے مگر یہ لوگ انہیں نبی نہیں تسلیم کرتے ہوں گے۔


آیت 24