آیت 27
 

وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔

تشریح کلمات

رِجَالًا:

( ر ج ل ) راجل ۔ پیدل چلنے والا۔ اس کی جمع رجال آتی ہے۔

ضَامِرٍ:

(ض م ر) الضامر ۔ ضمر لاغر ہونے کے معنوں میں ہے۔

فَجٍّ: ( ف ج ج ) الفج دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو کہتے ہیں۔ بعد میں وسیع راستہ کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ: یہ جملہ بھی طَہِّرۡ کے ساتھ مربوط ہے۔ اے ابراہیم لوگوں میں حج کا اعلان کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ اعلان پوری فطرت کی گہرائیوں، جبلت کے کانوں، آنے والی نسلوں اور آفاق عالم میں گونج رہا ہے۔ اس کی صدائے بازگشت قیامت تک آتی رہے گی: لبیک اللّٰہم لبیک۔ لبیک لا شریک لک لبیک ۔

حدیث میں آیا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو حج کے اعلان کا حکم آیا تو عرض کیا:

یَا رَبِّ وَ مَا یَبْلُغُ صَوْتِی ۔

اے مالک! میری آواز نہیں پہنچے گی۔

تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اَذِّنْ عَلَیْکَ الْاَذَانُ وَ عَلَیَّ الْاِبْلَاغُ ۔ (مستدرک الوسائل ۹: ۱۹۵)

اعلان کیجیے۔ اعلان کرنا آپ کے ذمے اور پہنچانا ہمارے ذمے ہے۔

چنانچہ اسی آیت میں اللہ نے وعدہ فرمایا:

۲۔ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ: چنانچہ اس اعلان کے بعد لوگ آپ کے پاس پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر دور دراز راستوں سے آئیں گے۔ ضامر نحیف کمزور اونٹ کو کہتے ہیں۔ راستہ دور ہونے اور زاد راہ کی قلت کی وجہ سے ان کی سواریاں نحیف ہوں گی پھر بھی اس اعلان کے نتیجے میں وہ اس گھر کے حج کے لیے آتے رہیں گے۔

۳۔ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ: لفظ يَّاْتِيْنَ معنی کے اعتبار سے کُلِّ ضَامِرٍ کی صفت ہے یعنی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ ۔ وہ کمزور، نحیف سواریوں پر ہوں گے جو دور دراز راستوں سے آتی ہیں۔ راستے پُرمشقت ہوں گے پھر بھی اس اعلان کا یہ اثر ہو گا کہ وہ شدید مشقت بھی برداشت کر لیں گے۔

اہم نکات

۱۔ جو قدم برائے خدا ہو اسے دوام ملتا ہے۔

۲۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توحید پرستی میں یکسوئیت ہے جس کی وجہ سے وہ تمام ادیان کے لیے سند بن گئی۔


آیت 27