حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ﴿۳۱﴾

۳۱۔ صرف (ایک) اللہ کی طرف یکسو ہو کر، کسی کو اس کا شریک بنائے بغیر اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ ایسا ہے گویا آسمان سے گر گیا پھر یا تو اسے پرندے اچک لیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دے۔

31۔ اس مثال سے معلوم ہوا کہ شرک سے انسان کا انسانی تشخص ختم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آسمان سے گرنے والے کے جسم کے پرخچے اڑ جاتے ہیں اور پرندے اس کے جسم کے ٹکڑے اچک کر لے جاتے ہیں۔ یعنی ایک مردار کی طرح ہو جاتا ہے۔

ذٰلِکَ ٭ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ ﴿۳۲﴾

۳۲۔ بات یہ ہے کہ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔

32۔ شعائر یعنی وہ چیزیں جو اطاعت الٰہی کے لیے علامات ہیں۔ جیسے صفا، مروہ اور قربانی کے اونٹ وغیرہ۔ تقویٰ وہ ہے جس کا محرک دل میں ہو، یعنی عشق الٰہی سے سرشار دل ہی تقویٰ کا محرک ہو سکتا ہے۔

لَکُمۡ فِیۡہَا مَنَافِعُ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ مَحِلُّہَاۤ اِلَی الۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ﴿٪۳۳﴾

۳۳۔ اس (قربانی کے جانور) سے ایک معین مدت تک فائدہ اٹھانا تمہارے لیے (جائز) ہے، پھر اس کا (ذبح ہونے کا) مقام قدیم خانہ کعبہ کے پاس ہے۔

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ہے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں، پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پس اسی کے آگے سر تسلیم خم کرو اور (اے رسول) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔

34۔ تم پہلی امت نہیں ہو جس کو یہ حکم مل رہا ہے۔ سب امتوں کے لیے ہم نے قربانی کا دستور دیا ہے کیونکہ تم سب کا معبود ایک ہے۔ اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے۔

الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَصَابَہُمۡ وَ الۡمُقِیۡمِی الصَّلٰوۃِ ۙ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ جن کا یہ حال ہے کہ جب اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپنے لگتے ہیں اور وہ مصیبت پر صبر کرنے والے ہوتے ہیں اور نماز قائم کرنے والے ہوتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، پس اسے کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو پھر جب یہ پہلو پر گر پڑے تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ، یوں ہم نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔

36۔ قربانی کے اونٹ کے بارے میں فرمایا: جَعَلۡنٰہَا ہم نے ان کو شعائر اللہ قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کوئی چیز شعائر اللہ میں اس وقت شامل ہوتی ہے، جب اللہ اسے شعائر اللہ قرار دے۔

صَوَآفَّ : صفوں میں کھڑے اونٹوں پر اللہ کا نام لو۔ یہ اونٹوں کے نحر سے متعلق ہے کہ اونٹ باندھ کر کھڑی حالت میں نحر کیا جاتا ہے۔

الۡقَانِعَ : گوشت کا ایک حصہ اس فقیر کو دے دیں جو قانع ہے۔ یعنی جو کچھ اسے دیا جاتا ہے، اسے قبول کرتا ہے۔ الۡمُعۡتَرَّ وہ ہے جو آپ کے پاس سوال کے لیے آتا ہے۔ کچھ حصہ الۡمُعۡتَرَّ یعنی سائل کو دیں۔

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اور (اے رسول) آپ نیکی کرنے والوں کو بشارت دیں ۔

37۔ جیسا کہ مشرکوں کا عقیدہ تھا کہ بھینٹ چڑھا کر خون کو کعبے کی دیواروں پر ملنے سے قربانی کا خون اور گوشت اللہ کو پہنچ جاتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوۡرٍ﴿٪۳۸﴾ ۞ؓ

۳۸۔ اللہ ایمان والوں کا یقینا دفاع کرتا ہے اور اللہ کسی قسم کے خیانت کار ناشکرے کو یقینا پسند نہیں کرتا۔

38۔ اہل ایمان کا دفاع اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان بھی بنی اسرائیل کی طرح اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہیں: آپ اور آپ کا رب لڑائی کریں، ہم یہاں بیٹھے ہیں، بلکہ اللہ ان ایمان والوں کا دفاع کرتا ہے جو اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستور پر عمل کرتے ہیں اور دشمن کے مقابلے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کرتے ہیں۔

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔

39۔ اس آیت اور اس طرح کی دیگر متعدد آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جنگیں صرف دفاعی حیثیت کی تھیں۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایا کہ جہاد کا اذن ان لوگوں کے لیے ہے جن پر جنگ مسلط کی گئی اور جو مظلوم واقع ہوئے اور وہ گھروں سے صرف اس جرم میں نکالے گئے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔

بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ آیت پہلی آیت ہے جس میں قتال کا حکم آیا ہے اور اسی لیے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت مدنی ہے، چونکہ جہاد کا حکم مدینے میں آیا تھا۔

الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ﴿۴۰﴾

۴۰۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے ہیں، محض اس جرم میں کہ وہ یہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے روکے نہ رکھتا تو راہبوں کی کوٹھڑیوں اور گرجوں اور عبادت گاہوں اور مساجد کو جن میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم کر دیا جاتا اور اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کی مدد کرے گا، اللہ یقینا بڑا طاقتور اور بڑا غالب آنے والا ہے۔

40۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت تکوینی کے تحت کسی ایک قوم یا گروہ کو اتنی طاقت نہیں دیتا کہ وہ دوسری تمام قوموں سے جینے کا حق سلب کر لے۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی کی عبادت گاہ تک محفوظ نہ رہتی بلکہ اللہ نے سب کو کسی نہ کسی طاقت کے ذریعے لگام دے رکھی ہے۔