آیت 30
 

ذٰلِکَ ٭ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ وَ اُحِلَّتۡ لَکُمُ الۡاَنۡعَامُ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔بات یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کی عظمت کا پاس کرے تو اس کے رب کے نزدیک اس میں اس کی بہتری ہے اور تم لوگوں کے لیے مویشی حلال کر دیے گئے ہیں سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں بتایا جائے گا، پس تم لوگ بتوں کی پلیدی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ ذٰلِکَ: یہ ہے مناسک حج بجالانے کا طریقہ ہے۔

۲۔ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ حُرُمٰتِ اللّٰہِ: حرمات اللہ وہ امور ہیں جن کے ارتکاب کو اللہ نے ممنوع قرار دیا ہے۔ ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ارتکاب سے اجتناب کیا جائے۔ اللہ کی طرف سے آنے والے احکام کو عظیم خیال کریں۔ ان پر عمل نہ کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے اسے عظیم نہیں سمجھا اور حکم خدا کی اہانت کی۔

۳۔ وَ اُحِلَّتۡ لَکُمُ الۡاَنۡعَامُ: اونٹ، گائے، بھیڑ، بکریاں حلال ہیں۔ یہ سورہ مکی ہے جس میں حلّیت کا حکم اور حرام چیزوں سے اجتناب کا حکم آیا۔

۴۔ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ: چوپاؤں میں سے وہ حرام ہیں جنہیں آیندہ بیان کیا جائے گا۔ آیندہ سے مراد سورہ ہائے نحل، بقرہ اور مائدہ میں نازل ہونے والے احکام ہیں جو ان چوپاؤں کے حرام ہونے پر مشتمل ہیں۔ جیسے مردار،خون، خنزیر، غیر اللہ کے نام کے ذبیحے وغیرہ۔

۵۔ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ: انعام اور اوثان ۔ چوپاؤں کو ذبح کرنا اور بت پرستی حج کے دنوں میں مشرکین کے بنیادی اعمال میں شامل تھی۔ چوپائے اپنے دیوتاؤں کے نام پر ذبح ہوتے تھے۔ حج میں کعبہ، صفا و مروہ اور دیگر مقامات پر بت نصب تھے۔ اس لیے فرمایا: خاص کر حج کے دنوں میں بت پرستی سے اجتناب کرو کیونکہ یہ بت ناپاک ہیں جو پاکیزہ عبادت کے لیے مانع ہیں۔

۶۔ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ: جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔ یعنی اللہ کی طرف ان باتوں کی نسبت دینا جن سے اللہ بَری ہے۔ قول زور سے بعض کے نزدیک مشرکین کی تلبیہ یہ ہے جس میں وہ کہتے تھے: لبیک لا شریک لک الا شریکا۔ ہو لک تملکہ و ما ملک ۔ اس میں نفی شرک کے ساتھ وجود شرک کا اقرار ہے جو باطل ہے۔

تاہم اس آیت کے اطلاق میں ہر باطل بات شامل ہے۔ چنانچہ حدیث میں اس آیت کے مصادیق کے بارے میں آیا ہے:

عَدَلَتْ شَہَادَۃُ الزُّورِ الشِّرْکَ بِاللّٰہِ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۷: ۴۱۶)

جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب حکم خدا کی توہین ہے۔

۲۔ قول زور کو بت پرستی کے برابر جرم قرار دیا گیا ہے۔


آیت 30