اِنَّ الَّذِیۡنَ سَبَقَتۡ لَہُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰۤی ۙ اُولٰٓئِکَ عَنۡہَا مُبۡعَدُوۡنَ﴿۱۰۱﴾ۙ

۱۰۱۔ جن کے حق میں ہماری طرف سے پہلے ہی (جنت کی) خوشخبری مل چکی ہے وہ اس آتش سے دور ہوں گے۔

لَا یَسۡمَعُوۡنَ حَسِیۡسَہَا ۚ وَ ہُمۡ فِیۡ مَا اشۡتَہَتۡ اَنۡفُسُہُمۡ خٰلِدُوۡنَ﴿۱۰۲﴾ۚ

۱۰۲۔ جہاں وہ اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ ان چیزوں میں رہیں گے جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوں گی۔

لَا یَحۡزُنُہُمُ الۡفَزَعُ الۡاَکۡبَرُ وَ تَتَلَقّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ ہٰذَا یَوۡمُکُمُ الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ انہیں قیامت کے بڑے خوفناک حالات بھی خوفزدہ نہیں کریں گے اور فرشتے انہیں لینے آئیں گے( اور کہیں گے) یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔

103۔ قیامت کی اس عظیم ہولناک حالت میں ان لوگوں کو کوئی غم نہ ہو گا جن کو اللہ نے پہلے وعدہ نجات دے دیا ہے۔ فرشتے انہیں خوش آمدید کہیں گے اور کہیں گے: ہٰذَا یَوۡمُکُمُ آج تمہارا دن ہے۔ وہی دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح طومار میں اوراق لپیٹتے ہیں، جس طرح ہم نے خلقت کی ابتدا کی تھی، اسے ہم پھر دہرائیں گے، یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے جسے ہم ہی پورا کرنے والے ہیں۔

104۔ یعنی جس حالت سے ہم نے آسمان کی خلقت کی ابتدا کی تھی اسی حالت کو دہرائیں گے۔ یعنی اس وسیع و عریض آسمان کو طومار میں اوراق کی طرح لپیٹ لیں گے۔ جس سے ساری کتابت نظروں سے اوجھل ہو جائے گی۔ اسی طرح آسمان بھی غائب ہو جائے گا اور آسمان کی خلقت سے پہلے کی حالت کا اعادہ ہو جائے گا: لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا کی حالت میں آ جائے گا۔ اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ موجودہ آسمان کے لپیٹ لینے کے بعد ہم ایک نیا عالم اور جدید کائنات پیدا کریں گے۔ یعنی جس طرح موجودہ آسمان کے لپیٹ لینے کے بعد ہم ایک نیا عالم اور جدید کائنات پیدا کریں گے۔ اس طرح ہم اس کا اعادہ کریں گے اور جدید کائنات بنائیں گے۔ یہ تفسیر لفظ اعادہ کے ساتھ قرین حقیقت معلوم ہوتی ہے۔

وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

105۔ دنیا میں ہر شخص موجودہ صورت حال سے نالاں ہے، کوئی مالی فقر میں مبتلا ہے تو کوئی روحانی محرومیت سے دو چار ہے۔ اس لیے ہر شخص کا ضمیر اور وجدان ایک عدل و انصاف اور امن و آشتی پر مبنی نظام کا طالب ہے۔ ظاہر ہے جس چیز کا سرے سے کوئی وجود نہ ہو انسانی ضمیر اسے طلب نہیں کرتا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو اس کی کسی کو طلب بھی نہ ہوتی۔ لہٰذا انسانی ضمیر کی طلب اس بات کی دلیل ہے کہ انسانیت کو ایک ایسا نظام ملنے والا ہے جس میں اللہ کے نیک بندے ہی زمین کے وارث ہوں گے اور زمین عدل و انصاف سے اس طرح پر ہو جائے گی جس طرح یہ ظلم و جور سے پر ہو گئی تھی۔

دنیا کو ہے اس مہدی علیہ السلام بر حق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار

اِنَّ فِیۡ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوۡمٍ عٰبِدِیۡنَ﴿۱۰۶﴾ؕ

۱۰۶۔ اس( بات) میں بندگی کرنے والوں کے لیے یقینا ایک آگاہی ہے۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

107۔ اہل عالم کو اپنے اللہ کی طرف سے ایک ایسا دستور حیات پیش فرمایا جس میں زندگی کے ہر قدم کی رہنمائی ہے، دارین کی سعادت ہے۔اس نے دنیا کو تہذیب سکھائی، تمدن کی راہ کھولی، اس نے زندگی کا سلیقہ سکھایا، انسانیت کو امن کا درس دیا، انسان کو اس کی قدریں سمجھا دیں، انسان کو انسانی عظمت واپس دلا دی اور یہ عالمین کے لیے رحمت بن کر آیا۔

قُلۡ اِنَّمَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ کہدیجئے : میرے پاس وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے، تو کیا تم تسلیم کرتے ہو؟

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ اٰذَنۡتُکُمۡ عَلٰی سَوَآءٍ ؕ وَ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ اَمۡ بَعِیۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ پھر اگر انہوں نے منہ موڑ لیا تو کہ دیجئے: ہم نے تمہیں یکساں طور پر آگاہ کر دیا ہے اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور، یہ میں نہیں جانتا۔

109۔ اٰذَنۡتُکُمۡ عَلٰی سَوَآءٍ : تمہیں حقائق سے یکساں طور پر آگاہ کر دیا ہے۔ تبلیغ احکام میں تفریق سے کام نہیں لیا گیا کہ کچھ کو پورے حقائق سے آگاہ کیا ہو اور کچھ سے پوشیدہ رکھا ہو۔ سَوَآءٍ کے معنی ”نہایت صاف“ یا ”علی الاعلان“ کرنا اشتباہ ہے۔

وَ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ : اللہ کی دعوت کو مسترد کرنے کی صورت میں تمہیں گرفت میں لینے کا وقت قریب ہے یا دور، اس کا میں اظہار نہیں کر سکتا۔

اِنَّہٗ یَعۡلَمُ الۡجَہۡرَ مِنَ الۡقَوۡلِ وَ یَعۡلَمُ مَا تَکۡتُمُوۡنَ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ اور وہ بلند آواز سے کہی جانے والی باتوں کو بھی یقینا جانتا ہے اور انہیں بھی جانتا ہے جنہیں تم پوشیدہ رکھتے ہو۔

وَ اِنۡ اَدۡرِیۡ لَعَلَّہٗ فِتۡنَۃٌ لَّکُمۡ وَ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ اور میں نہیں جانتا شاید اس (عذاب کی تاخیر) میں تمہاری آزمائش ہے اور ایک مدت تک سامان زیست ہے۔

قٰلَ رَبِّ احۡکُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ وَ رَبُّنَا الرَّحۡمٰنُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ﴿۱۱۲﴾٪ ۞ؒ

۱۱۲۔ رسول نے کہا: میرے رب تو ہی حق کا فیصلہ فرما اور تم جو باتیں بناتے ہو اس کے مقابلے میں ہمارے مہربان رب سے ہی مدد مانگی جاتی ہے۔

112۔ پہلے جملے میں رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنے حق کا فیصلہ دینے کی درخواست کرتے ہیں۔ بعد میں لوگوں کی طرف رخ کرتے ہیں اور اللہ کی رحمانیت کے حوالے سے بات کرتے ہیں: ہمارے مہربان رب سے مدد لی جاتی ہے۔ وہ تمہارے مقابلے ہماری مدد کرے گا۔