آیت 107
 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

تفسیر آیات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود، آپؐ کی ذات، آپؐ کا پیغام، آپؐ کی نبوت، تمام عالمین کے لیے رحمت ہے۔ آپؐ کے رحمت ہونے کی اساس آپؐ کی دعوت الی التوحید ہے جو حق و حقیقت تک رسائی کے لیے بہت بڑی نعمت اور رحمت ہے ورنہ جاہلیت میں لوگ حقیقت اور حق سے دور موہومات میں گم تھے۔

i۔ آپؐ نے حق و باطل میں تمیز کرنے کا سلیقہ دیا۔

ii۔ انسان کو احترام آدمیت کا شعور ملا۔

iii۔ انسان کو انسانی حقوق میسر آئے۔

iv۔ عدل و انصاف اور ناانصافی کی میزان عنایت فرمائی۔

v۔ ایک جامع نظام حیات عنایت فرمایا۔

vi۔ خواب غفلت اور جہالت میں پڑی انسانیت کو جگایا۔

vii۔ دنیا میں باعزت زندہ رہنے کے لیے آداب زیست سکھائے۔

viii۔ زندگی کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا جس کے لیے آداب اور قانون عطا نہ کیا ہو۔

ix۔ آپؐ کے مبعوث ہونے کے بعد ہی انسانیت نے تہذیب و تمدن کی طرف ایک جست لگائی۔

x۔ تاریخ انسانیت میں پہلی مرتبہ آپ ؐنے غیر طبقاتی معاشرہ متعارف کرایا۔

ذیل میں ہم آپ ؐکے رحمۃ للعالمین ہونے سے متعلق آیات و احادیث کے چند نمونے پیش کرنے پر اکتفا کریں گے:

لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (۹ توبہ: ۱۲۸)

بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔

ii۔ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ۔۔۔ (۷ اعراف:۱۵۷)

اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔

۱۔ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

انما انا رحمۃ مہداۃ ۔۔۔۔ (بحار الانوار۔ ۱۶:۱۱۵)

میں (اللہ کی طرف سے) ہدیہ شدہ رحمت ہوں۔

۲۔ روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے جبرئیل سے فرمایا: کیا اس رحمت کا کچھ حصہ آپ تک بھی پہنچا ہے تو جبرئیل نے کہا: ہاں میں اپنی عاقبت کے بارے میں فکر مند تھا۔ آپؐ کی وجہ سے مجھے اطمینان ملا۔ جب اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں فرمایا:

ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ( ۸۱ تکویر:۲۰،۲۱، بحار الانوار۱۶:۳۰۶)

جو قوت کا مالک ہے، صاحب عرش کے ہاں بلند مقام رکھتاہے۔ وہاں ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امین ہیں۔

روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

حِیَاتِی خَیْرٌ لَکُمْ وَ مَمَاتِی خَیْرٌ لَکُمْ قَالُوا یَا رَسُولَ اللہِ وَکَیْفَ ذَلِک فَقَالَ ص اَمَّا حِیَاتِی فَاِنَّ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ وَ اَمَّا مُفَارَقَتِی اِیَّاکُمْ فَاِنَّ اَعْمَالَکُمْ تُعْرَضُ عَلَیَّ کُلَّ یُوْمٍ فَمَا کَانَ مِنْ حَسَنٍ اسْتَزَدْتُ اللہَ لَکُمْ وَمَا کَانَ مِنْ قَبِیْحٍ اسْتَغْفَرْتُ اللہَ لَکُمْ ۔۔۔۔ ( الفقیہ ۱:۱۹۱)

میری زندگی تمہارے لیے خیر ہے اور میری جدائی بھی۔ عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا: میری زندگی اس لیے خیر ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک آپؐ ان میں موجود ہیں۔ میری جدائی اس لیے خیر ہے کہ تمہارے اعمال روزانہ میرے سامنے پیش ہوتے ہیں اگر نیکی ہے تو اللہ سے مزید مانگتا ہوں اور برائی ہے تو مغفرت طلب کرتا ہوں۔

۴۔ حدیث ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

مَا مِنْ شَیْئٍ یُقَرِّبُکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ وَ یُبَعِدُکُمْ مِنَ النَّارِ اِلَّا وَ قَدْ اَمَرْتُکُمْ بِہِ وَ مَا مِنْ شَیْئٍ یُقَرِّبُکُمْ مَنَ النَّارِ وَ یُبَعِدُکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ اِلَّا وَ قَدْ نَھَیْتُکُمْ عَنْہُ ۔۔۔۔ (الکافی۲: ۷۴)

کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو تمہیں جنت سے نزدیک اور آتش سے دور کر دے میں نے تمہیں اس کے بجا لانے کا حکم دیا اور کوئی ایسی چیز بھی میں نے نہیں چھوڑی جو تمہیں آتش جہنم کے نزدیک اور جنت سے دور کر دے میں نے تمہیں اسے ترک کرنے کا حکم دیا۔

جس جگہ سے رحمت کا یہ چشمہ پھوٹا ہے اس جگہ کے بارے میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِنَّ اللہَ بَعَثَ مُحَمَّداً صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَذِیراً لِلْعَالَمِینَ وَ اَمِیناً عَلَی التَّنْزِیلِ وَاَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَی شَرِّ دِینٍ وَ فِی شَرِّ دَارٍ مُنِیخُونَ بِیْنَ حِجَارَۃٍ خُشْنٍ وَ حَیَّاتٍ صُمٌّ تَشْرَبُونَ الْکَدِرَ وَ تَأکُلُونَ الْجَشِبَ ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خطبہ: ۲۶)

اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالمین کے لیے تنبیہ کرنے والا اور تنزیل کا امین بنا کر اس وقت مبعوث فرمایا جب تم عرب بدترین دین پر اور بدترین علاقے میں رہنے والے تھے۔ ناہموار پتھروں اور زہریلے سانپوں کے درمیان بود و باش رکھتے تھے۔ گندا تعفن کا پانی پیتے تھے اور غلیظ ترین غذا کھاتے تھے۔

روز قیامت کی شفاعت: روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَخْبَرَنِی الرُّوحُ الْاَمِینُ۔۔۔ فَمَا خَلَقَ اللّٰہُ عَبْداً مِنْ عِبَادِہِ مَلَکٍ وَ لَا نَبِیِّ اِلَّا وَ یُنادِِی یَا رَبِّ نَفْسِی نَفْسِی وَ اَنْتَ تَقُولُ یَا رَبِّ اُمَّتِی اُمَّتِی ۔۔۔۔ (الکافی ۸: ۳۱۲)

جبرائیل نے مجھ سے کہا:۔۔۔ (روز قیامت) تمام مخلوق خدا، خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی، نفسی نفسی پکاریں گے اور آپؐ امتی امتی پکاریں گے۔

رہا یہ سوال کہ آپؐ عالمین کے لیے رحمت ہیں تو کافروں کے لیے بھی رحمت ہونا چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ جنگوں میں ان کو قتل کیا جاتا ہے۔ آخرت میں جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ رسول ؐکے رحمۃ للعالمین ہونے سے بالاتر اللہ ارحم الراحمین ہے۔ اگر کوئی شخص اس رحمت کو قبول کرنے کے لیے ظرفیت اور اہلیت نہیں رکھتا اور اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے تو رحمت کے دشمن ناسور کو کاٹ کر پھینک دینا چاہیے اور اسے سزا بھی ملنی چاہیے ورنہ رحمت الٰہی میں سب کے لیے گنجائش موجود ہے: وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۶)

اہم نکات

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اس کے اہل کو پہنچتی ہے۔


آیت 107