وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

105۔ دنیا میں ہر شخص موجودہ صورت حال سے نالاں ہے، کوئی مالی فقر میں مبتلا ہے تو کوئی روحانی محرومیت سے دو چار ہے۔ اس لیے ہر شخص کا ضمیر اور وجدان ایک عدل و انصاف اور امن و آشتی پر مبنی نظام کا طالب ہے۔ ظاہر ہے جس چیز کا سرے سے کوئی وجود نہ ہو انسانی ضمیر اسے طلب نہیں کرتا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو اس کی کسی کو طلب بھی نہ ہوتی۔ لہٰذا انسانی ضمیر کی طلب اس بات کی دلیل ہے کہ انسانیت کو ایک ایسا نظام ملنے والا ہے جس میں اللہ کے نیک بندے ہی زمین کے وارث ہوں گے اور زمین عدل و انصاف سے اس طرح پر ہو جائے گی جس طرح یہ ظلم و جور سے پر ہو گئی تھی۔

دنیا کو ہے اس مہدی علیہ السلام بر حق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار