آیت 104
 

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح طومار میں اوراق لپیٹتے ہیں، جس طرح ہم نے خلقت کی ابتدا کی تھی، اسے ہم پھر دہرائیں گے، یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے جسے ہم ہی پورا کرنے والے ہیں۔

تشریح کلمات

السِّجِلِّ:

( س ج ل ) السجل کے اصل معنی اس پتھر کے ہیں جس پر لکھا جاتا تھا۔ بعد میں ہر اس چیز کو جس پر لکھا جائے سجل کہنے لگے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ: قیامت کے موقع پر یہ آسمان لپیٹ لیا جائے گا۔ خزانہ غیب میں چلا جائےگا۔ انسان کے لیے مانوس اس کائنات کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس کی جگہ ایک نئی کائنات وجود میں آئے گی۔

یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوۡا لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ (۱۴ ابراہیم: ۴۸)

یہ (انتقام) اس دن ہو گا جب یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ہوں گے۔

۲۔ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ: یہ کائنات اپنی ابتدا کی حالت میں واپس جائے گی اور لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا ۔۔۔۔ (۷۶ انسان: ۱) ہو جائے گی۔ پھر نُّعِیۡدُہٗ نئے سرے سے دوبارہ ایک جدید کائنات تعمیر ہو گی۔ بنابر قولے یہ جملہ انسان کے بارے میں ہے کہ انسان کو اس طرح دوبارہ خلق کریں گے جس طرح شروع میں خلق کیا تھا۔ لیکن یہ سیاق آیت کے خلاف ہے۔

۳۔ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ: یہ وعدۂ الٰہی ہے کہ یہ کائنات صرف دار التکلیف میں منحصر نہیں نہیں ہے۔ اس کے بعد دار الجزاء آئے گا۔ اگر دار الجزاء نہ آیا تو یہ کائنات بے مقصد ہو جائے گی۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے بعد جس عالم میں ہم ہوں گے اس کا زمان و مکان، ہماری اس دنیا سے مختلف ہو گا۔

۲۔ قیامت آنا وعدۂ الٰہی کے مطابق ضروری اور حتمی ہے۔


آیت 104