یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح طومار میں اوراق لپیٹتے ہیں، جس طرح ہم نے خلقت کی ابتدا کی تھی، اسے ہم پھر دہرائیں گے، یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے جسے ہم ہی پورا کرنے والے ہیں۔

104۔ یعنی جس حالت سے ہم نے آسمان کی خلقت کی ابتدا کی تھی اسی حالت کو دہرائیں گے۔ یعنی اس وسیع و عریض آسمان کو طومار میں اوراق کی طرح لپیٹ لیں گے۔ جس سے ساری کتابت نظروں سے اوجھل ہو جائے گی۔ اسی طرح آسمان بھی غائب ہو جائے گا اور آسمان کی خلقت سے پہلے کی حالت کا اعادہ ہو جائے گا: لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا کی حالت میں آ جائے گا۔ اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ موجودہ آسمان کے لپیٹ لینے کے بعد ہم ایک نیا عالم اور جدید کائنات پیدا کریں گے۔ یعنی جس طرح موجودہ آسمان کے لپیٹ لینے کے بعد ہم ایک نیا عالم اور جدید کائنات پیدا کریں گے۔ اس طرح ہم اس کا اعادہ کریں گے اور جدید کائنات بنائیں گے۔ یہ تفسیر لفظ اعادہ کے ساتھ قرین حقیقت معلوم ہوتی ہے۔