آیات 101 - 102
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ سَبَقَتۡ لَہُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰۤی ۙ اُولٰٓئِکَ عَنۡہَا مُبۡعَدُوۡنَ﴿۱۰۱﴾ۙ

۱۰۱۔ جن کے حق میں ہماری طرف سے پہلے ہی (جنت کی) خوشخبری مل چکی ہے وہ اس آتش سے دور ہوں گے۔

لَا یَسۡمَعُوۡنَ حَسِیۡسَہَا ۚ وَ ہُمۡ فِیۡ مَا اشۡتَہَتۡ اَنۡفُسُہُمۡ خٰلِدُوۡنَ﴿۱۰۲﴾ۚ

۱۰۲۔ جہاں وہ اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ ان چیزوں میں رہیں گے جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوں گی۔

تشریح کلمات

حسس:

(ح س س) اور الحس حرکت، رہٹ کو بھی کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ سَبَقَتۡ لَہُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰۤی: مجمع البیان میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن الزبعری کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ان معبودوں میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح جنہیں پہلے جنت کی خوشخبری مل چکی ہو گی وہ جہنم کی آہٹ تک نہیں سنیں گے۔

الۡحُسۡنٰۤی: وعدہ جنت یا سعادت، یہ احسن کی تانیث ہے۔ اصل میں الموعدۃ الحسنیٰ ہے۔ جس کا ہم نے خوشخبری سے ترجمہ کیا ہے۔

۲۔ اُولٰٓئِکَ عَنۡہَا مُبۡعَدُوۡنَ: جن کو پہلے ہی خوشخبری دی جا چکی ہے وہ آتش سے دور رہیں گے۔

۳۔ لَا یَسۡمَعُوۡنَ حَسِیۡسَہَا: وہ جہنم کی آگ کی آہٹ تک نہیں سنیں گے۔ اگرچہ سب کو جہنم سے ہی گزارا جائے گا۔

وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا (۱۹ مریم: ۷۱)

اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہو گا جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ حتمی فیصلہ آپ کے رب کے ذمے ہے۔

۴۔ وَ ہُمۡ فِیۡ مَا اشۡتَہَتۡ اَنۡفُسُہُمۡ: جنت کی نعمتوں کے وصف و بیان کے لیے ممکنہ تعبیر یہی ہو سکتی ہے جو جامع بھی ہے اور دنیاوی مفاہیم کے تحت قابل فہم ہے۔ ’’ہر خواہش پوری ہو گی‘‘ کی فضا میں ہمیشہ رہیں گے۔

شواہد التنزیل میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

یا علی فیکم نزلت ھذہ الایۃ ۔

اے علی! آپ لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔


آیات 101 - 102