آیت 105
 

وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

تشریح کلمات

الزَّبُوۡرِ:

( ز ب ر ) زبرت الکتاب ۔ میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی حرف میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ: زبور وہ صحیفہ ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوا۔ چنانچہ فرمایا:

وَ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا (۴ نساء: ۱۶۳)

اور داؤد کو ہم نے زبور دی۔

۲۔ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ: ذکر سے مراد توریت ہے یا قرآن یا لوح محفوظ۔ کسی ایک پر آیت میں کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اگرچہ قرآن اور توریت کو قرآن میں ذکر کے نام سے یاد کیا ہے۔ بعض فرماتے ہیں الذکر سے ذکر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مراد ہے جو صحف انبیاء میں موجود تھا۔

۳۔ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا: اس زمین سے مراد کون سی زمین ہے جس کے صالح بندے وارث ہوں گے؟ بعض مفسرین دنیوی زمین اور اقتدار مراد لیتے ہیں کہ اللہ اپنے صالح بندوں کو اقتدار دیتا ہے۔ حالانکہ عملاً ایسا دیکھنے میں نہیں آتا۔ اکثر اقتدار غیر صالح لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔ ایک توجیہ اس کی یہ ہو سکتی ہے کہ اس آیت کا مصداق ابھی وجود میں نہیں آیا۔ یہ ایک پیشگوئی اور خوشخبری ظہور مہدی عجل اللّٰہ فرجہ کے بعد کی دنیا کے بارے میں ہے کہ اس وقت ہی صالح بندے اس زمین کے وارث بنیں گے۔ اس نظریے کی تائید میں یہ آیت پیش کی جاتی ہے۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ ۔۔۔۔ (۲۴ نور: ۵۵)

تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا۔۔۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے متواتر احادیث اس موضوع پر موجود ہیں جن میں صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ قائم آل محمد علیہ السلام اور ان کے اصحاب ہیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

لَو لَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا یَوْمٌ لَطَوَّلَ اللہُ ذَلِکَ الیَوْمَ حَتَّی یبعث اللہ رجل منی یَمْلَاَھَا قِسْطاً وَ عَدْلاً کَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً ۔۔۔۔ (غیبۃ الطوسی ص ۸۶ ۴: ۱۷۷)

اگر دنیا کی عمر میں صرف ایک دن رہ گیا ہو تو بھی اللہ اس دن کو اس قدر طویل بنا دے گا تاکہ ایک شخص کو اٹھائے جو مجھ سے ہو، جو زمین کو عدل و انصاف سے ایسے پر کرے گا جیسے ظلم وجور سے پر ہو گئی ہو گی۔

دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ جنت کی سرزمین کا ذکر ہے جس کے وارث اللہ کے صالح بندے ہوں گے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ صَدَقَنَا وَعۡدَہٗ وَ اَوۡرَثَنَا الۡاَرۡضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الۡجَنَّۃِ حَیۡثُ نَشَآءُ ۚ فَنِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ (۳۹ زمر: ۷۴)

اور وہ کہیں گے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں اس سرزمین کا وارث بنایا کہ جنت میں ہم جہاں چاہیں جگہ بنا سکیں، پس عمل کرنے والوں کا اجر کتنا اچھا ہے۔

اس نظریے پر سیاق آیات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ یہ آیت بھی عالم آخرت سے مربوط آیات کے ساتھ مربوط ہے لیکن سیاق کے ظہور پر آیت کی تفسیر میں وارد روایات کی صراحت مقدم ہے۔ لتقدم النص علی الظاہر نیز الۡاَرۡضَ سے مراد ارض جنت ہونے پر کوئی قرینہ موجود نہیں ہے جس طرح سورہ زمر کی آیت میں موجود ہے۔


آیت 105