آیت 110
 

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا﴿۱۱۰﴾٪

۱۱۰۔ کہدیجئے: میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود تو بس ایک ہی ہے لہٰذا جو اپنے رب کے حضور جانے کا امیدوار ہے اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائے۔

تفسیر آیات

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ: کہدیجیے میں تم جیسا انسان ہوں۔ مِّثۡلُکُمۡ ہوں۔ جسمانی طور پر تم جیسا ہوں۔ ظاہر میں لوگوں کے لیے تم جیسا ہوں۔ تمہاری طرح مادی وسائل کو استعمال میں لاتا ہوں۔ کھاتا ہوں، پیتا ہوں، سوتا ہوں، ازدواج کرتا ہوں، اولاد رکھتا ہوں۔ تم مجھے دیگر انسانوں کی طرح چلتے، اٹھتے، بیٹھتے اور بات کرتے دیکھ سکتے ہو۔ نامرئی وجود نہیں ہوں۔ میرا جو وجود تمہارے حاسہّ بصر میں آتا ہے اس میں تو تم جیسا ہوں۔

یُوۡحٰۤی اِلیّ: میرے جس وجود پر وحی ہوتی ہے وہ تم جیسا نہیں ہے۔ میرا دل تمہارے دل کی طرح نہیں ہے۔ میرادل راز ہائے الٰہی کا مخزن ہے۔ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ (۲ بقرۃ: ۹۷) میرا قلب وحی الٰہی کی جائے نزول ہے۔ میری نگاہ بھی تمہاری نگاہ کی طرح نہیں ہے۔

مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ( ۵۳ نجم: ۱۷)

نگاہ نے نہ انحراف کیا اور نہ تجاوز۔

مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی (۵۳ نجم: ۱۱)

جو کچھ (نظروں نے) دیکھا اسے دل نے نہیں جھٹلایا۔

واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حواس ہمارے حواس کی طرح نہیں ہیں۔ بایں معنی کہ جو کچھ رسول اللہ ؐکے حواس میں آتا ہے عام بشری حواس ان چیزوں کو درک کرنے سے عاجز ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں

اَرَی نُوْرَالوَحْییِ وَ الرِّسَالَۃِ و اَشُمُّ رِیحَ النُّبُوَّۃِ وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّۃَ الشَّیْطَانِ حِینَ نَزَلَ الْوَحْییُ عَلَیہِ ص فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا ھَذِہِ الرَّنَّۃُ فَقَالَ ھَذَا الشَّیْطَانُ قَدْ آیِسَ مِنْ عِبَادَتِہِ اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اَسْمَعُ وَ تَرَی مَا اَرَی اِلَّا اَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیَّ ۔۔۔۔ ( نہج البلاغہ خ ۱۹۰ فضل الوحی )

میں وحی اور رسالت کی روشنی کا مشاہدہ کرتا تھا اور نزول وحی کے موقع پر میں نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا۔ نزول وحی کے موقع پر میں نے شیطان کی چیخ سن لی، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ چیخ کیا ہے؟ فرمایا: یہ شیطان ہے وہ اس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ لوگ اس کی بندگی کریں گے۔ (اے علی) تو وہی کچھ سن سکتا ہے جو میں سن سکتا ہوں اور وہی کچھ دیکھ سکتے ہو جو میں دیکھ سکتا ہوں۔ صرف یہ کہ تو نبی نہیں ہے۔

اس روایت میں یہ جملے قابل توجہ ہیں: اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اَسْمَعُ وَ تَرَی مَا اَرَی ۔ جو کچھ میں سن سکتا ہوں علی تو بھی سن سکتاہے اور جو کچھ میں دیکھ سکتا ہوں تو بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسولؐ کی سماعت اور بصارت اور دوسروں کی سماعت اور بصرت میں نمایاں فرق ہے۔

اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ: جو وحی میرے قلب پر نازل ہوتی ہے اس وحی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبودہے۔ حدیث میں آیا ہے:

ان اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اقسم بعزتہ و جلالہ ان لا یعذب اہل توحیدہ بالنار ابداً ۔ ( التوحید)

اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت و جلالت کی قسم کھائی ہے کہ وہ کبھی بھی اہل توحید کو آتش کا عذاب نہیں دے گا۔

اہل توحید وہ لوگ ہیں جو جیسے عقیدے کے اعتبار سے ایک اللہ کو مانتے ہیں، عمل کی دنیامیں بھی ایک ہی اللہ کو مانتے ہیں۔ جب انسان عملی اعتبار سے موحد ہوتا ہے تو وہ حضرت خلیل علیہ السلام کی طرح کسی غیر اللہ کو خواہ وہ جبرئیل ہی کیوں نہ ہو اعتنا میں نہیں لاتا۔

فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ: رب کی بارگاہ میں جانے کا عقیدہ انسان کے عمل کا محرک بنتا ہے جو توحید کا لازمی نتیجہ ہے۔ اگر عمل نہیں ہے تو توحید کا عقیدہ ایک بے معنی دعویٰ ہے۔ اسی طرح شرک کی نفی بھی توحید ہی کی دوسری تعبیر ہے۔

وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا: اللہ کی بندگی میں کسی اور کو شریک کرنا اللہ تعالیٰ کی شان میں انتہائی گستاخی ہے۔ اس کی مخلوقات میں سے کسی کو خالق کائنات اور رب العالمین کی صف میں رکھاجائے۔ اسی لیے شرک سب گناہوں میں بدتر گناہ ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:

اِنَّہٗ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ الۡجَنَّۃَ ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۷۲)

بے شک جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا، بتحقیق اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۱۶)

اللہ صرف شرک سے درگزر نہیں کرتا اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف کر دیتا ہے۔۔۔۔


آیت 110