آیات 103 - 104
 

قُلۡ ہَلۡ نُنَبِّئُکُمۡ بِالۡاَخۡسَرِیۡنَ اَعۡمَالًا﴿۱۰۳﴾ؕ

۱۰۳۔ کہدیجئے: کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے نامراد کون لوگ ہیں؟

اَلَّذِیۡنَ ضَلَّ سَعۡیُہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ یُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ جن کی سعی دنیاوی زندگی میں لاحاصل رہی جب کہ وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ درست کام کر رہے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ ہَلۡ نُنَبِّئُکُمۡ بِالۡاَخۡسَرِیۡنَ: سب سے زیادہ ناقابل تلافی خسارے میں وہ لوگ ہیں،

۲۔ اَلَّذِیۡنَ ضَلَّ: جو مرکب ضلالت میں ہیں۔ مرکب ضلالت کا مطلب یہ ہے کہ ایک یہ کہ وہ خود ضلالت میں ہیں، دوسرا یہ کہ وہ اپنی اس ضلالت کو درست کام سمجھتے ہیں۔ اس قسم کی گمراہی زیادہ خطرناک اور ہدایت سے دور ہوتی ہے۔ یہ بالکل جہل مرکب کی طرح ہے کہ ایک شخص ایک مطلب کو نہیں جانتا اور اپنے اس نہ جاننے کو بھی نہیں جانتا۔ ایسا شخص جاننے کی کوشش کبھی نہیں کرے گا۔ اس لیے اس گمراہی کو سب سے زیادہ نامراد قرار دیا۔

اہم نکات

۱۔ اپنی ضلالت پر آگہی نہ ہونا سب سے بڑی ضلالت ہے۔


آیات 103 - 104