آیات 105 - 106
 

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فَلَا نُقِیۡمُ لَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَزۡنًا﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں اور اللہ کے حضور جانے کا انکار کیا جس سے ان کے اعمال برباد ہو گئے لہٰذا ہم قیامت کے دن ان کے (اعمال کے) لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔

ذٰلِکَ جَزَآؤُہُمۡ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوۡا وَ اتَّخَذُوۡۤا اٰیٰتِیۡ وَ رُسُلِیۡ ہُزُوًا﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ ان کے کفر کرنے اور ہماری آیات اور رسولوں کا استہزا کرنے کی وجہ سے ان کی سزا یہی جہنم ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: جو لوگ بدترین خسارے میں ہیں ان کے بارے میں بیان جاری ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آیات الٰہی اور آخرت کا انکار کرتے تھے۔ آیات الٰہی میں آفاق و انفس کے ساتھ رسالت و نبوت بھی شامل ہیں جن کے یہ لوگ منکر ہیں۔ ان کے اعمال حبط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اعمال جس کے لیے مطلوب تھے اس کے لیے نہیں کیے اور جس کے لیے کیے ہیں وہ مطلوب نہ تھے۔جو مطلوب تھا وہ کیا نہیں اور جو کیا وہ مطلوب نہ تھا اس لیے حبط ہونا قدرتی بات ہے۔ جب حبط ہو گا تو قدروں کے ترازو میں ان اعمال کا کوئی وزن نہ ہو گا۔

۲۔ ذٰلِکَ جَزَآؤُہُمۡ: جب ان کے اعمال حبط اور برباد ہیں اور ان کا آیات اور رسولوں کا استہزا کرنے کا جرم ثابت ہے تو اس کا لازمی نتیجہ جہنم ہے۔

اہم نکات

۱۔ آیات الٰہی اور آخرت کے انکار کے بعد قدروں کے ترازو میں اعمال کا کوئی وزن نہیں رہتا۔


آیات 105 - 106