اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّ یَلۡبَسُوۡنَ ثِیَابًا خُضۡرًا مِّنۡ سُنۡدُسٍ وَّ اِسۡتَبۡرَقٍ مُّتَّکِئِیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ؕ نِعۡمَ الثَّوَابُ ؕ وَ حَسُنَتۡ مُرۡتَفَقًا﴿٪۳۱﴾

۳۱۔ ان کے لیے دائمی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ سونے کے کنگنوں سے مزین ہوں گے اور باریک ریشم اور اطلس کے سبز کپڑوں میں ملبوس مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، بہترین ثواب ہے اور خوبصورت منزل۔

30۔ 31 سونے کے کنگن، حجلہ ابریشم، اطلس کے لباس، یہ سب جنت کی شاہانہ زندگی کی طرف اشارہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالم آخرت، عالم دنیا سے مختلف ہے۔ وہاں کا طرز زندگی اللہ تعالیٰ ہمارے محسوسات کی روشنی میں سمجھاتا ہے، ورنہ عالم آخرت کے حقائق اس عالم ناسوت والوں کے لیے قابل فہم و ادراک نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ ان دو آیات سے یہ بات واضح ہے کہ یہ ثواب ان کے لیے ہے جن کے پاس ایمان کے ساتھ عمل صالح ہے۔ اس لیے فرمایا: ہم نیک عمل بجا لانے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ اس سے واضح ہوا ہے کہ اگر ایمان کے ساتھ عمل صالح نہ ہو تو اس کا کوئی اجر ہی نہیں ہوتا کہ ضائع کا سوال پیدا ہو جائے، بلکہ اس پر ایمان ہی صادق نہیں آتا۔

وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا ﴿ؕ۳۲﴾

۳۲۔ اور (اے رسول) ان سے دو آدمیوں کی ایک مثال بیان کریں جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عطا کیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگا دی اور دونوں کے درمیان کھیتی بنائی تھی۔

32۔ آیت میں ایک نادار اور ایک سرمایہ دار میں مکالمے کی مثال پیش کی گئی ہے۔ سرمایہ دار کا طرز تفکر یہ ہے: ٭وہ مال و اولاد کی فراوانی کو ہی انسان کی منزل مقصود قرار دیتا ہے اور وہ صرف مادی اقدار کو جانتا ہے: اَنَا اَکۡثَرُ مِنۡکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ۔ ٭دولت میں مدہوش انسان عاقبت کی فکر نہیں کرتا۔ وہ اپنی خوشحالی کو دائمی تصور کرتا ہے: مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا ۔ ٭مراعات کا عادی انسان خود کو آخرت کی تمام مراعات کا بھی حقدار سمجھتا ہے: لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا ۔

جبکہ مومن کا مؤقف یہ ہے: ٭ایمان انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ خالق کی معرفت حاصل کرنے والا ہی عالی قدروں کا مالک ہے:

اَکَفَرۡتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ مِنۡ تُرَابٍ ۔

٭مال و دولت میسر آنے کی صورت میں مؤمن ناز و غرور کی جگہ اس کو اللہ کی عطا کردہ نعمت تصور کرتا ہے: مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔ ٭مومن مال و اولاد کی قلت پر شاکر رہتا ہے اور اللہ کی رحمتوں کی امید رکھتا ہے: فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ ۔ ٭مومن اس مال و دولت کی نا پائیداری پر نگاہ رکھتا ہے اور عاقبت اندیش ہوتا ہے: وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا ۔ آخر میں مؤمن کو اس ناعاقبت اندیش سرمایہ دار کی ندامت اور برے انجام کا مشاہدہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے: وَ اُحِیۡطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصۡبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ عَلٰی مَاۤ اَنۡفَقَ فِیۡہَا ۔

کِلۡتَا الۡجَنَّتَیۡنِ اٰتَتۡ اُکُلَہَا وَ لَمۡ تَظۡلِمۡ مِّنۡہُ شَیۡئًا ۙ وَّ فَجَّرۡنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ دونوں باغوں نے خوب پھل دیا اور ذرا بھی کمی نہ کی اور ان کے درمیان ہم نے نہر جاری کی۔

وَّ کَانَ لَہٗ ثَمَرٌ ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَنَا اَکۡثَرُ مِنۡکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور اسے پھل ملتا رہتا تھا، پس باتیں کرتے ہوئے اس نے اپنے ساتھی سے کہا: میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور افرادی قوت میں بھی زیادہ معزز ہوں۔

34۔ یہ ملحد اپنے مومن رفیق سے کہتا ہے کہ اگر میں برحق نہ ہوتا تو میں مال و اولاد کی فراوانی میں تجھ سے بہتر نہ ہوتا۔ تقریباً تمام دنیاداروں کا طرز فکر یہی ہے کہ مال و دولت کی قدر و قیمت ایمان و تقویٰ سے زیادہ سمجھتے ہیں۔

وَ دَخَلَ جَنَّتَہٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا ﴿ۙ۳۵﴾

۳۵۔ اور وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا، کہنے لگا:میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی فنا ہو جائے گا۔

وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور میں خیال نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر مجھے میرے رب کے حضور پلٹا دیا گیا تو میں ضرور اس سے بھی اچھی جگہ پاؤں گا۔

36۔ مراعات کا عادی انسان جس طرح دنیا میں تمام مراعات کو اپنا حق تصور کرتا ہے اسی طرح آخرت کی مراعات کو بھی اپنا حق تصور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اگرچہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا لیکن اگر کوئی قیامت ہے تو میرا حال وہاں اس دنیا سے بھی بہتر ہو گا۔

قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَکَفَرۡتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰىکَ رَجُلًا ﴿ؕ۳۷﴾

۳۷۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے اس کے ساتھی نے کہا : کیا تو اس اللہ کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا پھر تجھے ایک معتدل مرد بنایا؟

37۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جاگیردار عقیدۃً مشرک، منکر قیامت اور منکر خدا تھا؟ یا وہ عقیدۃً ایسا نہ تھا بلکہ وہ دولت میں بدمست ہونے کی وجہ سے اس قسم کے کردار کا مالک تھا جو ایک منکر خدا اور منکر قیامت اختیار کرتا ہے۔ دوسری صورت کے لیے دو قرینے موجود ہیں: اول یہ کہ یہ شخص قیامت کے امکان کا اظہار کرتا ہے۔ دوم یہ کہ یہ شخص وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ میں رَبِّیۡ کا فقرہ استعمال کرتا ہے۔ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ عقیدۃً منکر خدا نہیں تھا بلکہ وہ عملًا اس مالک حقیقی کو نہیں اپنے آپ کو مالک سمجھتا تھا اور اس دولت کو عنایت الہی نہیں اپنے ہنر اور مہارت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔

لٰکِنَّا۠ ہُوَ اللّٰہُ رَبِّیۡ وَ لَاۤ اُشۡرِکُ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا﴿۳۸﴾

۳۸۔ لیکن میرا رب تو اللہ ہی ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔

38۔ اس سرمایہ دار کے مقابلے میں مومن اپنا مؤقف بیان کرتا ہے کہ مومن اللہ ہی کو اپنا رب اور مالک مانتا ہے یعنی عقیدۃً و عملًا اللہ کو ہی مالک سمجھتا ہے اور مال و دولت کو اپنی مہارت کا مرہون نہیں مانتا۔

وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ دَخَلۡتَ جَنَّتَکَ قُلۡتَ مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۚ اِنۡ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنۡکَ مَالًا وَّ وَلَدًا ﴿ۚ۳۹﴾

۳۹۔ اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہیں کہا: ما شآء اللّٰہ لا قوۃ الا باللّٰہ؟ (ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہے طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ ہے) اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر سمجھتا ہے،

فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِیۡدًا زَلَقًا ﴿ۙ۴۰﴾

۴۰۔تو بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عنایت فرمائے اور تیرے باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے اور وہ صاف میدان بن جائے۔