آیت 35
 

وَ دَخَلَ جَنَّتَہٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا ﴿ۙ۳۵﴾

۳۵۔ اور وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا، کہنے لگا:میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی فنا ہو جائے گا۔

تشریح کلمات

تَبِیۡدَ:

( ب ی د ) اصل میں یہ بیداء سے ہے جو میدان میں کسی چیز کے پراگندہ ہونے کے معنوں میں ہے۔ اسی سے کامل تباہی و بربادی کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

دولت میں مدہوش انسان عاقبت کی فکر نہیں کرتا۔ وہ اپنی خوشحالی کو دائمی تصور کرتا ہے۔ وہ کسی ناگہانی حالت کے لیے آمادہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ کسی مافوق قوت پر ایمان نہیں رکھتا اور اسے اپنے مال و دولت کے زوال کے فی الحال کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے۔

وَ دَخَلَ جَنَّتَہٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ: اس فقرے سے دو باتیں سامنے آتی ہیں: ایک یہ کہ وہ صرف مشاہدات و محسوسات کے دائرے میں سوچتا ہے، عقل و خرد سے کام نہیں لیتا۔ دوسری یہ کہ اس کا اعتماد خدائے واحد پر نہیں ہے۔ وہ ظالم بہ نفس یعنی مشرک ہے۔ اگر عقیدے سے مشرک نہ ہو تو عملاً خدا پر اعتماد نہیں ہے۔


آیت 35