وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا ﴿ؕ۳۲﴾

۳۲۔ اور (اے رسول) ان سے دو آدمیوں کی ایک مثال بیان کریں جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عطا کیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگا دی اور دونوں کے درمیان کھیتی بنائی تھی۔

32۔ آیت میں ایک نادار اور ایک سرمایہ دار میں مکالمے کی مثال پیش کی گئی ہے۔ سرمایہ دار کا طرز تفکر یہ ہے: ٭وہ مال و اولاد کی فراوانی کو ہی انسان کی منزل مقصود قرار دیتا ہے اور وہ صرف مادی اقدار کو جانتا ہے: اَنَا اَکۡثَرُ مِنۡکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ۔ ٭دولت میں مدہوش انسان عاقبت کی فکر نہیں کرتا۔ وہ اپنی خوشحالی کو دائمی تصور کرتا ہے: مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا ۔ ٭مراعات کا عادی انسان خود کو آخرت کی تمام مراعات کا بھی حقدار سمجھتا ہے: لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا ۔

جبکہ مومن کا مؤقف یہ ہے: ٭ایمان انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ خالق کی معرفت حاصل کرنے والا ہی عالی قدروں کا مالک ہے:

اَکَفَرۡتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ مِنۡ تُرَابٍ ۔

٭مال و دولت میسر آنے کی صورت میں مؤمن ناز و غرور کی جگہ اس کو اللہ کی عطا کردہ نعمت تصور کرتا ہے: مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔ ٭مومن مال و اولاد کی قلت پر شاکر رہتا ہے اور اللہ کی رحمتوں کی امید رکھتا ہے: فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ ۔ ٭مومن اس مال و دولت کی نا پائیداری پر نگاہ رکھتا ہے اور عاقبت اندیش ہوتا ہے: وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا ۔ آخر میں مؤمن کو اس ناعاقبت اندیش سرمایہ دار کی ندامت اور برے انجام کا مشاہدہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے: وَ اُحِیۡطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصۡبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ عَلٰی مَاۤ اَنۡفَقَ فِیۡہَا ۔