آیات 30 - 31
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ مَنۡ اَحۡسَنَ عَمَلًا ﴿ۚ۳۰﴾

۳۰۔ جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں تو ہم نیک اعمال بجا لانے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے ۔

اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّ یَلۡبَسُوۡنَ ثِیَابًا خُضۡرًا مِّنۡ سُنۡدُسٍ وَّ اِسۡتَبۡرَقٍ مُّتَّکِئِیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ؕ نِعۡمَ الثَّوَابُ ؕ وَ حَسُنَتۡ مُرۡتَفَقًا﴿٪۳۱﴾

۳۱۔ ان کے لیے دائمی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ سونے کے کنگنوں سے مزین ہوں گے اور باریک ریشم اور اطلس کے سبز کپڑوں میں ملبوس مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، بہترین ثواب ہے اور خوبصورت منزل۔

تشریح کلمات

اَسَاوِرَ:

( س و ر ) سوار کی جمع ہے۔ اس کے معنی کنگن کے ہیں۔ راغب کے بقول یہ فارسی دستوار سے معرب ہے۔

سُنۡدُسٍ:

باریک ریشم استبرق ۔ اطلس۔

الۡاَرَآئِکِ:

اریکۃ کی جمع جو حجلہ تخت کے اوپر رکھا ہوا ہو اسے اریکہ کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

سونے کے کنگن اور حجلہ ابریشم اور اطلس کے لباس، یہ سب جنت کی شاہانہ زندگی کی طرف اشارہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عالم آخرت، عالم دنیا سے مختلف ہے۔ وہاں کا طرز زندگی، اللہ تعالیٰ ہمارے محسوسات کی روشنی میں سمجھاتا ہے ورنہ عالم آخرت کے حقائق اس عالم ناسوت والوں کے لیے ناقابل فہم و ادراک ہیں۔

واضح رہے ان دو آیات سے یہ بات واضح ہے کہ یہ ثواب ان کے لیے ہے جن کے پاس ایمان کے ساتھ عمل صالح ہے۔ وہ حسن عمل سے اپنے ایمان کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اس لیے فرمایا: ہم نیک عمل بجا لانے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ اس سے واضح ہوا کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح بجا نہ لایا جائے تو اس کا کوئی اجر ہی نہیں ہوتا کہ ضائع ہونے کا سوال پیدا ہو بلکہ اس پر ایمان ہی صادق نہیں آتا۔

اہم نکات

۱۔ ایمان اگر عمل کے لیے محرک نہ بنے تو وہ ایمان نہیں ہے۔

۲۔ ایمان کا اگر کردار پر اثر نمایاں ہے تو اس کا اجر ضائع نہیں جاتا۔


آیات 30 - 31