وَ کَذٰلِکَ اَعۡثَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ لِیَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا ۚ٭ اِذۡ یَتَنَازَعُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اَمۡرَہُمۡ فَقَالُوا ابۡنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنۡیَانًا ؕ رَبُّہُمۡ اَعۡلَمُ بِہِمۡ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور اس طرح ہم نے (لوگوں کو) ان سے باخبر کر دیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (کے آنے) میں کوئی شبہ نہیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو کچھ نے کہا: ان (کے غار) پر عمارت بنا دو، ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے، جنہوں نے ان کے بارے میں غلبہ حاصل کیا وہ کہنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد بناتے ہیں۔

21۔ سریانی روایت میں آیا ہے کہ اس وقت مسیحیوں میں قیامت اور اخروی زندگی کے بارے میں بحث چھڑی ہوئی تھی اور منکرین قیامت کے مقابلے میں مؤمنین کے دلائل کمزور تھے۔ عین اس وقت اصحاب کہف کی بیداری کا واقعہ پیش آیا تو قیامت پر ایمان رکھنے والوں کو ایک سند مل گئی اور حیات بعد الموت ان کے لیے ناقابل فہم مسئلہ نہ رہا۔

ممکن ہے یہ نزاع قیامت کے بارے میں ہو۔ جو لوگ اس واقعہ کو قیامت کی دلیل نہیں سمجھتے تھے ان کا یہ کہنا تھا کہ اس غار پر دیوار چن دینا چاہیے اور جو لوگ اس واقعہ کو دلیل آخرت سمجھتے تھے، ان کا یہ کہنا تھا کہ اس پر مسجد تعمیر کرنی چاہیے۔

سَیَقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ خَمۡسَۃٌ سَادِسُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ رَجۡمًۢا بِالۡغَیۡبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَبۡعَۃٌ وَّ ثَامِنُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلٌ ۬۟ فَلَا تُمَارِ فِیۡہِمۡ اِلَّا مِرَآءً ظَاہِرًا ۪ وَّ لَا تَسۡتَفۡتِ فِیۡہِمۡ مِّنۡہُمۡ اَحَدًا﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین ہیں، چوتھا ان کا کتا ہے اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے، یہ سب دیکھے بغیر اندازے لگا رہے ہیں اور کچھ کہیں گے: وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے، کہدیجئے: میرا رب ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے ان کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں لہٰذا آپ ان کے بارے میں سطحی گفتگو کے علاوہ کوئی بحث نہ کریں اور نہ ہی ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ دریافت کریں۔

22۔ نزول قرآن کے وقت عیسائیوں میں اصحاب کہف کے بارے میں مختلف باتیں پھیلی ہوئی تھیں ان میں سے کسی ایک پر کوئی سند نہیں ہوتی تھی، صرف ظن و تخمین پر مبنی باتیں تھیں۔ اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں جن اقوال کا ذکر فرمایا، ان میں سے صرف آخری قول کی تردید نہ کرنے سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہی تعداد صحیح ہے۔ تعداد اتنی اہم بات نہیں ہے، اس لیے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم ہوا کہ نہ تو تعداد پر بحث کریں، نہ اس کے بارے میں کسی سے سوال کریں۔ اس سلسلے میں اہمیت کا حامل وہ سبق ہے جو اس واقعہ سے ملتا ہے۔

وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔اور آپ کسی کام کے بارے میں ہرگز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کروںگا،

23۔ اصل فعل و عمل کی نسبت بندے کی طرف بھی ہو سکتی ہے، اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن نے متعدد مقامات پر اعمال کو انسانوں کی طرف نسبت دی ہے۔ یہاں بات استقلال کی ہو رہی ہے کہ کسی عمل کو بطور استقلال اپنی طرف نسبت نہ دو۔ اس کائنات میں اذن و مشیت الٰہی کے بغیر کوئی پتا نہیں ہل سکتا۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اذن و مشیت الٰہی امور تکوینی سے متعلق ہیں، امور تشریعی سے نہیں۔

اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ وَ قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّہۡدِیَنِ رَبِّیۡ لِاَقۡرَبَ مِنۡ ہٰذَا رَشَدًا﴿۲۴﴾

۲۴۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اگر آپ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کریں اور کہدیجئے: امید ہے میرا رب اس سے قریب تر حقیقت کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔

24۔ دوسرے جملے میں فرمایا کہ اگر آپ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کریں۔ یہاں خطاب اگرچہ اپنے حبیب سے ہے، لیکن ان لوگوں کو سمجھانا مقصود ہے جن کے لیے یہ قرآن دستور حیات ہے، {سر دلبران در حدیث دیگران}۔

وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو کا اضافہ کیا۔

25۔ اصحاب کہف قیصر روم تھیوڈوسیس کے عہد سلطنت میں تقریباً 445ء میں بیدار ہوئے اور بقول بعضے یہ واقعہ قیصر دقیانوس کے عہد 249۔251 میں پیش آیا۔ اس طرح ان کے خواب کی مدت 197 سال بنتی ہے۔ جبکہ قرآن یہ مدت 309 سال بتاتا ہے۔ اس کے دو جواب ہیں۔ اصل تحقیق کے مطابق اصحاب کہف کا واقعہ قیصر روم طراجان کے عہد سلطنت 98۔117ء میں پیش آیا، نہ کہ قیصر دقیانوس 251ء کے عہد میں، جیسا کہ بعض مسیحی روایات میں آیا ہے اور نہ دقیانوس 305ء کے عہد میں جیسا کہ بعض دیگر مسلم و غیر مسلم روایات میں آیا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ اصحاب کہف قیصر تھیوڈوسیس کے عہد میں بیدار ہوئے جس کی سلطنت 408ء سے 450ء تک رہی۔ لہذا اگر ہم 421 سے 309 منفی کریں تو طراجان کا عہد حکومت 112ء نکل آتا ہے۔ بعض مستشرقین سریانی روایت کو بنیاد بنا کر قرآنی روایت کو مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ سریانی روایت اصحاب کہف کی بیداری کے چالیس سال بعد لکھی گئی جو بیداری کے حالات کے بارے میں کسی قدر قابل اعتماد ہو سکتی ہے، لیکن ان کی ہجرت کا واقعہ کب پیش آیا؟ اس کے بارے میں سریانی روایت بالکل قابل اعتماد نہیں ہے، کیونکہ واقعہ اس روایت سے صدیوں پہلے پیش آیا تھا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ مدت بیان کرنے کا یہ قول لوگوں کے قول کا بیان ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول، کیونکہ بعد میں اللہ فرماتا ہے کہ ان سے کہ دیجیے اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت سوئے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ اللہ کا اپنا قول نہیں، لوگوں کے قول کا بیان ہے۔

قُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا ۚ لَہٗ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَبۡصِرۡ بِہٖ وَ اَسۡمِعۡ ؕ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّلِیٍّ ۫ وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا﴿۲۶﴾

۲۶۔ آپ کہدیجئے: ان کے قیام کی مدت اللہ بہتر جانتا ہے، آسمانوں اور زمین کی غیبی باتیں صرف وہی جانتا ہے، وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے، اس کے سوا ان کا کوئی سرپرست نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو اپنی حکومت میں شریک کرتا ہے۔

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا﴿۲۷﴾

۲۷۔(اے رسول) آپ کے رب کی کتاب کے ذریعے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھ کر سنا دیں کوئی اس کے کلمات کو بدلنے والا نہیں ہے اور نہ ہی آپ اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ پائیں گے۔

وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا﴿۲۸﴾ ۞ؓ

۲۸۔ اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محدود رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اپنی نگاہیں ان سے نہ پھیریں، کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش کے خواہشمند ہیں؟ اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔

28۔ شان نزول کے بارے میں منقول ہے کہ اشراف قریش کی طرف سے یہ دباؤ تھاکہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نادار و مسکین مؤمنین کو اپنی بارگاہ سے دور کر دیں۔ ممکن ہے کہ آیت نادار و مسکین مؤمنین کی دل جوئی کے لیے ہو یا ممکن ہے خود رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دل جوئی کے لیے ہو، کیونکہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قدرتاً یہ آرزو رہتی تھی کہ رؤسائے قریش اگر ایمان لے آتے تو رونق اسلام میں نمایاں اضافہ ہو جاتا۔

وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمۡ سُرَادِقُہَا ؕ وَ اِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور کہدیجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، ہم نے ظالموں کے لیے یقینا ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیرے میں لے رہی ہوں گی اور اگر وہ فریاد کریں تو ایسے پانی سے ان کی دادرسی ہو گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا بدترین مشروب اور بدترین ٹھکانا ہے۔

29۔ حق کے واضح ہونے اور حجت پوری ہونے کے بعد ایمان اور کفر اختیار کرنا خود بندے کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ مَنۡ اَحۡسَنَ عَمَلًا ﴿ۚ۳۰﴾

۳۰۔ جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں تو ہم نیک اعمال بجا لانے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے ۔