وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا﴿۲۸﴾ ۞ؓ

۲۸۔ اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محدود رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اپنی نگاہیں ان سے نہ پھیریں، کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش کے خواہشمند ہیں؟ اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔

28۔ شان نزول کے بارے میں منقول ہے کہ اشراف قریش کی طرف سے یہ دباؤ تھاکہ رسول ﷺ نادار و مسکین مؤمنین کو اپنی بارگاہ سے دور کر دیں۔ ممکن ہے کہ آیت نادار و مسکین مؤمنین کی دل جوئی کے لیے ہو یا ممکن ہے خود رسول اللہ ﷺ کی دل جوئی کے لیے ہو، کیونکہ آپ ﷺ کو قدرتاً یہ آرزو رہتی تھی کہ رؤسائے قریش اگر ایمان لے آتے تو رونق اسلام میں نمایاں اضافہ ہو جاتا۔