فَضَرَبۡنَا عَلٰۤی اٰذَانِہِمۡ فِی الۡکَہۡفِ سِنِیۡنَ عَدَدًا ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ پھر کئی سالوں تک غار میں ہم نے ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈال دیا۔

ثُمَّ بَعَثۡنٰہُمۡ لِنَعۡلَمَ اَیُّ الۡحِزۡبَیۡنِ اَحۡصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم دیکھ لیں کہ ان دو جماعتوں میں سے کون ان کی مدت قیام کا بہتر شمار کرتی ہے۔

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی ﴿٭ۖ۱۳﴾

۱۳۔ ہم آپ کو ان کا حقیقی واقعہ سناتے ہیں، وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی۔

13۔ اس واقعہ کی متعدد روایات ہیں۔ سب سے قدیم روایت سریانی روایت ہے کہ جو تقریباً 474ء میں اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد ایک شامی پادری نے زبانی روایت کی بنیاد پر لکھی۔ بعد کی یونانی اور لاطینی روایتوں کا بھی ماخذ یہی سریانی روایت رہی ہے اور اسلامی مورخین کی روایت سریانی سے مختلف نہیں ہے۔ سریانی روایت کا خلاصہ یہ ہے :

رومی حکمران دقیانوس یا تھیوڈوسیس متوفی 251ء کے دور میں بت پرستی کا مذہب رائج تھا۔ وہ مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر سخت ظلم و ستم روا رکھتا تھا۔ سات جوانوں نے اپنے دین کو بچانے کے لیے ہجرت کی اور راستے میں ایک کتا ان کے ساتھ ہو لیا۔ ان کی کوشش کے باوجود وہ کتا ان سے الگ نہ ہوا۔ جس شہر سے یہ ہجرت واقع ہوئی، وہ اکثر مورخین کے بقول شہر افسوس یا افسس یا اِفسس تھا جو موجودہ ترکی کے شہر ازمیر سے 20 میل کے فاصلے پر موجود تھا۔ یہ شہر ایشیائے کوچک میں بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہ ایک بڑے گہرے غار میں چھپ گئے اور کتا اس غار کے دہانے پر بیٹھ گیا۔ پیدل سفر کی وجہ سے تھک گئے تھے، فورا سو گئے۔ یہ واقعہ تقریباً 251 عیسوی کو پیش آیا اور قیصر تھیوڈوسیس کے عہد 447ء میں بیدار ہوئے۔ اس طرح اصحاب کہف کے خواب کی مدت 197 سال بنتی ہے۔

جب وہ قیصر تھیوڈوسیس کے عہد میں بیدار ہوئے تو اس وقت رومی سلطنت مسیحیت اختیار کر چکی تھی۔ بیدار ہو کر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھا ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے؟ کسی نے کہا دن بھر۔ کسی نے کہا دن کا کچھ حصہ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو چاندی کے چند سکے دے کر کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا۔ جب وہ شہر پہنچا تو حیرت زدہ ہو گیا کہ ہر چیز بدلی ہوئی ہے، سب لوگ مسیحی ہو گئے ہیں اور بت پرستی کرنے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ ایک دوکان سے روٹی خریدی، دکاندار کو چاندی کا ایک سکہ دیا جس پر قیصر تھیوڈوسیس کی تصویر تھی تو وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ دفینہ کہاں ہے جہاں سے تم یہ سکہ لائے ہو؟ کیونکہ قیصر تھیوڈوسیس کو مرے ہوئے مدت گزر چکی ہے۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گیا اور کہا کل ہی تو میں اور میرے ساتھی اس شہر سے بھاگے تھے اور غار میں پناہ لی تھی کہ دقیانوس (تھیوڈوسیس) کے ظلم سے بچے رہیں۔ اس کی باتیں سن کر لوگ اس غار تک پہنچ گئے اور خود بادشاہ بھی ان سے ملا۔

وَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۠ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلٰـہًا لَّقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا پس انہوں نے کہا: ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے، (اگر ہم ایسا کریں) تو ہماری یہ بالکل نامعقول بات ہو گی۔

ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ لَوۡ لَا یَاۡتُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِسُلۡطٰنٍۭ بَیِّنٍ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ ہماری اس قوم نے تو اللہ کے سوا اور وں کو معبود بنایا ہے، یہ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لائے؟ پس اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنے والوں سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے؟

وَ اِذِ اعۡتَزَلۡتُمُوۡہُمۡ وَمَا یَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ فَاۡ وٗۤا اِلَی الۡکَہۡفِ یَنۡشُرۡ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَیُہَیِّیٴۡ لَکُمۡ مِّنۡ اَمۡرِکُمۡ مِّرۡفَقًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور جب تم نے مشرکین اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے تو غار میں چل کر پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے معاملات میں تمہارے لیے آسانی فراہم کرے گا۔

وَ تَرَی الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُہُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمۡ فِیۡ فَجۡوَۃٍ مِّنۡہُ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرۡشِدًا﴿٪۱۷﴾

۱۷۔ اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا جاتا ہے اور وہ غار کی کشادہ جگہ میں ہیں،ـ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے، جسے اللہ ہدایت کرے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے آپ سرپرست و رہنما نہ پائیں گے۔

17۔ اس غار کا محل وقوع بیان ہو رہا ہے کہ سورج سے کس جانب واقع تھا۔ فرمایا : وہ اس غار کے تنگ دھانے پر نہیں کشادہ جگہ پر موجود تھے اور دھوپ کی ان تک رسائی نہیں ہوتی تھی یا اس لیے کہ غار کا رخ شمال کی جانب تھا اور کسی موسم میں بھی غار کے اندر دھوپ نہیں پہنچتی تھی یا اس لیے کہ اصحاب کہف غار کے دہانے سے اندر کی طرف کشادہ جگہ پر تھے اور سورج کی کرنیں ان تک نہیں پہنچ پاتی تھیں، اگرچہ غار کا رخ جنوب کی طرف تھا۔ آیت میں ان دونوں باتوں کے لیے گنجائش موجود ہے۔ اگر غار میں داخل ہونے کے اعتبار سے دائیں اور بائیں کہا جا رہا ہے تو غار کا رخ شمال کی طرف ہو گا اور اگر خارج ہونے کے اعتبار سے ہے تو غار کا رخ جنوب کی طرف ہو گا۔

وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ ٭ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَ کَلۡبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالۡوَصِیۡدِ ؕ لَوِ اطَّلَعۡتَ عَلَیۡہِمۡ لَوَلَّیۡتَ مِنۡہُمۡ فِرَارًا وَّ لَمُلِئۡتَ مِنۡہُمۡ رُعۡبًا﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور آپ خیال کریں گے کہ یہ بیدار ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دھانے پر دونوں ٹانگیں پھیلائے ہوئے ہے اگر آپ انہیں جھانک کر دیکھیں تو ان سے ضرور الٹے پاؤں بھاگ نکلیں اور ان کی دہشت آپ کو گھیر لے۔

18۔ ان کو کروٹ بدلتے دیکھ کر یہ خیال گزرنا قرین قیاس ہے کہ یہ بیدار ہیں، حالانکہ وہ محو خواب ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوں، دیکھنے والے یہ خیال کریں کہ یہ لوگ بیدار بھی ہیں اور بیداروں کی سی حرکتیں بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ایک خوفناک تصور ذہن میں آئے گا اور انسان وہاں سے بھاگنے میں ہی اپنی سلامتی تصور کرے گا۔ واضح رہے کہ بہت سے مقامات پر قرآن کا یہ طرز خطاب رہا ہے کہ ایک مطلب کو عام لوگوں کے لیے بیان کیا جاتا ہے لیکن خطاب اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کیا جاتا ہے۔

وَ کَذٰلِکَ بَعَثۡنٰہُمۡ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمۡ ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالُوۡا رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ ؕ فَابۡعَثُوۡۤا اَحَدَکُمۡ بِوَرِقِکُمۡ ہٰذِہٖۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ فَلۡیَنۡظُرۡ اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا فَلۡیَاۡتِکُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡہُ وَ لۡـیَؔ‍‍‍تَلَطَّفۡ وَ لَا یُشۡعِرَنَّ بِکُمۡ اَحَدًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اسی انداز سے ہم نے انہیں بیدار کیا تاکہ یہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں، چنانچہ ان میں سے ایک نے پوچھا: تم لوگ یہاں کتنی دیر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ایک دن یا اس سے بھی کم، انہوں نے کہا : تمہارا رب بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی مدت رہے ہو پس تم اپنے میں سے ایک کو اپنے اس سکے کے ساتھ شہر بھیجو اور وہ دیکھے کہ کون سا کھانا سب سے ستھرا ہے پھر وہاں سے کچھ کھانا لے آئے اور اسے چاہیے کہ وہ ہوشیاری سے جائے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔

19۔ وہ کفر کی طاقت سے مایوس ہو کر بھاگ گئے تھے اور دل میں یہ حسرت لیے گھر بار چھوڑ دیا کہ وہ دن کب آئے گا کہ باطل مٹ چکا ہو گا اور بت پرستی ختم ہو گئی ہو گی اور توحید پرستی عام ہو گئی ہو۔ اللہ نے ان کو اتنی مدت سلا دیا کہ وہ دن دیکھ پائیں کہ باطل مٹ چکا ہے اور حق کا بول بالا ہے۔

اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا : صرف روحانی غذا کی پاکیزگی نہیں، بلکہ جسمانی غذا کی طہارت و پاکیزگی بھی اسی قدر اہمیت کی حامل ہے۔ درحقیقت باطنی طہارت و ظاہری طہارت میں گہرا ربط ہے۔ اسی طرح دعا کی قبولیت کے لیے بھی غذا کی پاکیزگی اور حلال ہونے کو بڑا دخل ہے۔

اِنَّہُمۡ اِنۡ یَّظۡہَرُوۡا عَلَیۡکُمۡ یَرۡجُمُوۡکُمۡ اَوۡ یُعِیۡدُوۡکُمۡ فِیۡ مِلَّتِہِمۡ وَ لَنۡ تُفۡلِحُوۡۤا اِذًا اَبَدًا﴿۲۰﴾

۲۰۔ کیونکہ اگر وہ تم پر غالب آ گئے تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا اپنے مذہب میں پلٹائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو تم ہرگز فلاح نہیں پاؤ گے۔