آیت 28
 

وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محدود رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اپنی نگاہیں ان سے نہ پھیریں، کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش کے خواہشمند ہیں؟ اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔

تشریح کلمات

فُرُطًا:

( ف ر ط ) فرط آگے بڑھ جانے کے معنوں میں ہے۔ حدیث میں فرمایا: انا فرطکم علی الحوض میں حوض (کوثر) پر تمہارا پیشرو ہوں۔ (مستدرک الوسائل ۲: ۳۹۸) یہاں سے حد سے آگے بڑھنے والے کو مفرط اور فرطا کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

شان نزول کے سلسلے میں روایت ہے:

قریش کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک سے گزری اور دیکھا کہ آنحضرتؐ کے پاس صہیب، خباب، بلال، عمار و دیگر کچھ غریب مسلمان بیٹھے ہیں تو انہوں نے کہا: محمدؐ! آپ اس قسم کے لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ انہیں اپنے پاس سے ہٹائیں تو ہم آپؐ کے پاس بیٹھ سکتے ہیں۔ (تفسیر ثعلبی)

دوسری روایت میں آیا ہے:

یہ آیت سلمان فارسیؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب عینیہ بن حصین کو سلمانؓ کے کپڑوں سے بدبو آئی تو اس نے کہا: یا رسول اللہؐ جب ہم آپؐ کے پاس آئیں تو اس (سلمان فارسی) کو یہاں سے نکال دیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا ۔۔۔۔ (تفسیر قمی ۲: ۳۴)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ حکم مل رہا ہے کہ آپؐ اپنے ان ساتھیوں تک محدود رہیں جن میں دو اوصاف موجود ہیں: پہلا وصف یہ ہے کہ وہ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ حدیث میں آیاہے اس سے مراد نماز ہے۔(تفسیر عیاشی۔ مستدرک الوسائل۳: ۴۱، باب اتحباب اختیار الصلوۃ علی غیرھا )

دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں: یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ۔۔۔۔ وہ وجہ خدا کے طالب ہیں۔ ہر چیز کا وجہ وہ ہے جس سے وہ پہچانا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں قران کی مختلف تفاسیر میں آیا ہے کہ ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ اللّٰہِ، یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ،لِوَجۡہَ اللّٰہِ ان سب تعبیروں میں یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ اللہ کو چاہتے ہیں۔ ذات کو چاہنے کا یہ مطلب تو نہیں ہو سکتا کہ وہ ذات کا حصول چاہتے ہیں لہٰذا لازماً اس کا مطلب یہ بنتاہے اللہ کی رضا کا حصول چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ اسلام کا بوجھ ہمیشہ ناداروں نے اٹھایا ہے اور اسلام کے لیے غریبوں نے ہی قربانی دی ہے کیونکہ قربانی ہمیشہ وہ لوگ دیتے ہیں جو خواہشات کے اسیر نہیں ہیں۔ انسان کے پاس جب مال و دولت آ جاتی ہے تو اس کی خواہشات بیدار ہو جاتی ہیں۔جب خواہشات سر اٹھاتی ہیں تو پھر انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس اسیری سے رہائی نہیں مل سکتی۔ عیش و عشرت کی زندگی سے واپس پھر تنگی کی طرف نہیں آتے بلکہ وہ تمام مراعات کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام عہد نامہ مالک اشتر میں ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

وَلَیْسَ اَحَدٌ مِنَ الرَّعِیَّۃِ اَثْقَلَ عَلَی الْوَالِی مَؤونَۃً فِی الرَّخَائِ وَ اَقَلَّ مَعُونَۃً لَہُ فِی الْبَلَائِ وَ اَکْرَہَ لِلاِنْصَافِ وَ اَسْاَلَ بِالْاِلْحَافِ وَ اَقَلَّ شُکْراً عِنْدَ الِاعْطَائِ وَ اَبْطَاَء عُذْراً عِنْدَ الْمَنْعِ وَ اَضْعَفَ صَبْرا عَنْدَ مُلِمَّاتِ الدَّھْرِ مِنْ اَھْلِ الْخَاصَّۃِ ۔۔۔۔

یاد رکھو! کہ رعیت میں خواص (مراعات یافتہ طبقہ) سے زیادہ کوئی ایسا نہیں جو کہ خوشحالی کے وقت حاکم پر بوجھ بننے والا، مصیبت کے وقت امداد سے کترانے والا، انصاف پر ناک بھون چڑھانے والا، طلب و سوال کے موقعہ پر پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جانے والا، بخشش پر کم شکر گزار ہونے والا، محروم کر دیے جانے پر بہ مشکل عذر سننے والا زمانے کی ابتلاؤں پر بے صبری دکھانے والا ہو۔

پھر آپؑ نے عوام الناس کے بارے میں فرمایا:

وَ اِنَّمَا عِمَادُ الدِّیْنِ وَ جِمَاعُ الْمُسْلِمِینَ وَالْعُدَّۃُ لِلْاَعْدَائِ الْعَامَّۃُ مِنَ الْاُمَّۃِ ۔۔۔۔

اور دین کا مضبوط سہارا اور مسلمانوں کی قوت اور دشمن کے مقابلے میں سامان دفاع یہی امت کے عوام ہوتے ہیں۔۔۔۔

انبیاء علیہم السلام کی تاریخ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک اس دین خدا کی امانت کے حامل یہی غریب لوگ رہے ہیں۔ اس لیے حضورؐ کو حکم مل رہا ہے کہ ساری توجہ اور نگاہ ان غریبوں پر مرکوز رکھیں۔ چنانچہ فرمایا: وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۔۔۔۔ آپ اپنے نگاہیں ان سے نہ پھیریں۔

آپؐ کی توجہ ان سے تجاوز کر کے مراعات یافتہ طبقے کی طرف نہ جائے اور کہیں دنیا کی زیب و زینت سبب نہ بن جائے کہ اسلام کے جانثاروں اور اس دین کے اصل محافظوں سے آپؐ کی توجہ ہٹ جائے۔

واضح رہے کہ ان الفاظ اور تعبیر کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایسا عمل سرزد ہونے کا امکان تھا بلکہ ان آیات کا مقصد ان دو طبقوں (مراعات یافتہ اور غریب) کے بارے میں جو موقف اختیار کرنا چاہیے اس کا بیان ہے اور اس حقیقت کا بیان ہے کہ اس امانت کے امین کون لوگ ہیں۔

وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا: غریبوں سے نفرت کرنے والے وہ ہوتے ہیں جن کا قلب یاد خدا سے غافل ہوتا ہے۔ جن کے دل یاد خدا سے معمور ہوتے ہیں وہ صرف غربت کی بنیاد پر خلق خدا سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ان سے ہمدردی کرتے ہیں۔

وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ: ذکر خدا سے غافل انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی خواہشات کا اسیر ہے۔ خواہشات کا بندہ انسانی قدروں سے دور ہوا کرتا ہے۔ اس کی اقدار اور پہچان صرف خواہشات پر مبنی ہوتی ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اسلام کی اصل طاقت وہ لوگ ہیں جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں: یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ۔۔۔۔

۲۔ مراعات یافتہ طبقے پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے: وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۔۔۔۔

۳۔ خواہش پرستوں کی بات نہیں سننی چاہیے: وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ۔۔۔۔وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۔۔۔۔

مزید تحقیق کے لے رجو ع فرمائیے: بحار الانوار ۲۳ باب ماجری بینہ و بین اہل الکتاب ، تفسیر قمی ۲: ۳۴۔ سعد السعود : ۷۳


آیت 28