آیت 29
 

وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمۡ سُرَادِقُہَا ؕ وَ اِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور کہدیجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، ہم نے ظالموں کے لیے یقینا ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیرے میں لے رہی ہوں گی اور اگر وہ فریاد کریں تو ایسے پانی سے ان کی دادرسی ہو گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا بدترین مشروب اور بدترین ٹھکانا ہے۔

تشریح کلمات

سرادق:

( س ر د ق ) فارسی سے معرب ہے۔ اس کے معنی قنات کے ہیں۔

المھل:

( م ھ ل ) تلچھٹ۔ پگھلا ہوا تانبا۔

المرتفق:

تکیہ۔ جب اپنی کہنی پر تکیہ لگایا گیا تو کہتے ہیں: اِرْتَفَقَ ۔

یَشۡوِی:

( ش و ی ) شوی گوشت کا بھوننا۔ الطیر المشوی بھنا ہوا پرندہ۔

تفسیر آیات

حق کا منبع و مصدر صرف اللہ ہے: الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۔کوئی بھی بات واقع کے مطابق ہو تو اس بات کو صدق کہتے ہیں اور واقع کو حق کہتے ہیں۔ صدق کے مقابلے میں کذب اور حق کے مقابلے میں باطل آتا ہے۔ حق، ہستی اور باطل، نیستی ہے۔

فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ: جو چاہے ایمان لائے، جو چاہے کفر اختیار کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے تمہاے پاس حق آ گیا ہے۔ اس کے بعد ایمان لانے یا کفر اختیار کرنے میں تم خود مختار ہو۔ فَمَنْ شَاۗءَ جو چاہے اختیار کرے۔ قرآن نے اس مطلب کو مختلف الفاظ اور متعدد تعبیرات میں نہایت صریح اور واضح الفاظ میں بیان کیا ہے: مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ (۵ مائدہ۔ ۹۹)، قُلۡ فَلِلّٰہِ الۡحُجَّۃُ الۡبَالِغَۃُ ۚ فَلَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ (۶ انعام۔۱۴۹)، فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ ، (۱۳ رعد۔۴۰) فَہَلۡ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ (۱۶ نحل۔ ۳۵) فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ (۴۲شوری:۴۸)، لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ (۸۸ غاشیہ۔ ۲۲) و دیگر آیات میں غیر مبہم الفاظ میں بیان فرمایا: رسول کے ذمے حق کی تبلیغ اور حق و ہدایت کا بیان ہے۔ اس کے بعد اس حق کے قبول کرنے اور اس ہدایت پر چلنے کے لیے اللہ تعالیٰ طاقت استعمال نہیں فرماتا اور نہ ہی اپنے رسول کو طاقت استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آیت کی یہ صراحت ’’جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے‘‘ انسان کی خود مختاری پر واضح ترین دلیل ہے کہ ایمان لانا اور کفر اختیار کرنا انسان کے چاہنے اور اختیار کرنے کے سے مربوط ہے۔ یہ خودمختاری کی صورت میں ممکن ہے ورنہ مجبور ہونے کی صورت میں انسان کے چاہنے اور نہ چاہنے کا کوئی دخل نہیں ہے۔

ہم نے پہلے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ دشمنوں کے الزام کے برخلاف اسلامی جنگیں جبر اور طاقت کا استعمال نہیں تھیں بلکہ یہ جنگیں جبر کے خلاف تھیں۔ جن طاقتوں نے اسلام کے خلاف جبر اور طاقت کا استعمال کیا ان کے خلاف جنگیں لڑی گئیں ورنہ چشم جہان نے دیکھ لیا ہے کہ جن عناصر نے اسلام کے خلاف طاقت استعمال نہیں کی انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دی گئی۔ اسلامی قوانین اس آزادی کی شقوں سے پر ہیں۔ (کیا آپ کو ان لوگوں کے امت قرآن سے خارج ہونے میں تامل ہے جو اپنے سے ذرا اختلاف رکھنے والوں کو مسجدوں میں حالت نماز میں قتل کرتے ہیں۔ چنانچہ مسجد شاہ نجف راولپنڈی میں اور ۲۰۰۳؁ء میں کوئٹہ میں حالت نماز میں نمازیوں کا قتل عام ان درندوں اور ان کے حامیوں کے ماتھے پر ایک داغ اور عار و ننگ ہے، جسے وہ کبھی نہیں دھو سکیں گے)۔

چنانچہ ارشاد ہے:

لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ (۶۰ ممتحنة: ۸)

جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ حق کا پیغام ملنے کے بعد کفر و ایمان کا اختیار بندے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔


آیت 29