وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو کا اضافہ کیا۔

25۔ اصحاب کہف قیصر روم تھیوڈوسیس کے عہد سلطنت میں تقریباً 445ء میں بیدار ہوئے اور بقول بعضے یہ واقعہ قیصر دقیانوس کے عہد 249۔251 میں پیش آیا۔ اس طرح ان کے خواب کی مدت 197 سال بنتی ہے۔ جبکہ قرآن یہ مدت 309 سال بتاتا ہے۔ اس کے دو جواب ہیں۔ اصل تحقیق کے مطابق اصحاب کہف کا واقعہ قیصر روم طراجان کے عہد سلطنت 98۔117ء میں پیش آیا، نہ کہ قیصر دقیانوس 251ء کے عہد میں، جیسا کہ بعض مسیحی روایات میں آیا ہے اور نہ دقیانوس 305ء کے عہد میں جیسا کہ بعض دیگر مسلم و غیر مسلم روایات میں آیا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ اصحاب کہف قیصر تھیوڈوسیس کے عہد میں بیدار ہوئے جس کی سلطنت 408ء سے 450ء تک رہی۔ لہذا اگر ہم 421 سے 309 منفی کریں تو طراجان کا عہد حکومت 112ء نکل آتا ہے۔ بعض مستشرقین سریانی روایت کو بنیاد بنا کر قرآنی روایت کو مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ سریانی روایت اصحاب کہف کی بیداری کے چالیس سال بعد لکھی گئی جو بیداری کے حالات کے بارے میں کسی قدر قابل اعتماد ہو سکتی ہے، لیکن ان کی ہجرت کا واقعہ کب پیش آیا؟ اس کے بارے میں سریانی روایت بالکل قابل اعتماد نہیں ہے، کیونکہ واقعہ اس روایت سے صدیوں پہلے پیش آیا تھا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ مدت بیان کرنے کا یہ قول لوگوں کے قول کا بیان ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول، کیونکہ بعد میں اللہ فرماتا ہے کہ ان سے کہ دیجیے اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت سوئے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ اللہ کا اپنا قول نہیں، لوگوں کے قول کا بیان ہے۔