آیات 25 - 26
 

وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو کا اضافہ کیا۔

قُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا ۚ لَہٗ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَبۡصِرۡ بِہٖ وَ اَسۡمِعۡ ؕ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّلِیٍّ ۫ وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا﴿۲۶﴾

۲۶۔ آپ کہدیجئے: ان کے قیام کی مدت اللہ بہتر جانتا ہے، آسمانوں اور زمین کی غیبی باتیں صرف وہی جانتا ہے، وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے، اس کے سوا ان کا کوئی سرپرست نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو اپنی حکومت میں شریک کرتا ہے۔

تفسیر آیات

جملہ ہائے معترضہ کو حذف کیا جائے تو سلسلہ کلام کچھ اس طرح بنتا ہے:

کچھ لوگ کہیں گے وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے۔ کچھ کہیں گے وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے اور کچھ کہیں گے وہ سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے۔ وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور ان لوگوں نے نو کا اضافہ کیا۔ آپ کہدیجیے ان کے قیام کی مدت اللہ بہتر جانتا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی غیبی باتیں صرف وہی جانتا ہے۔ وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے۔

آیات کے سیاق سے ابن عباس کا یہ قول قرین حق معلوم ہوتا ہے کہ آیت ۲۵ میں تین سو اور تین سو نو کی جو مدت بیان کی گئی ہے وہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے اللہ تعالیٰ کا اپنا قول نہیں ہے۔ اس تفسیر پر اللہ تعالیٰ کا یہ فقرہ قرینہ بنتا ہے: آپ کہدیجیے ان کے قیام کی مدت اللہ بہتر جانتا ہے۔

اگر تین سو نو سال کی مدت اللہ کا قول ہوتا تو یہ فقرہ پہلے ہوتا اور ربط کلام کچھ اس طرح بنتا: آپ کہدیجیے ان کے قیام کی مدت اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو کا اضافہ کیا یا اس فقرے کی ضرورت نہ رہتی۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ابو بصیر کی روایت میں مروی ہے:

وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا و ہو حکایۃ عنہم و لفظہ خبر و الدلیل علی انہ حکایۃ عنہم قولہ: قُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا ۔ (بحار الانوار ۱۴: ۴۲۳ باب قصۃ اصحاب الکہف عن تفسیر القمی ۲: ۳۳)

اور وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور انہوں نے نو کا اضافہ کیا یہ فرمان لوگوں کے قول کی حکایت ہے تعبیر خبر کے انداز میں ہے۔ اس قول کے حکایت ہونے پر دلیل اگلا فقرہ ہے قُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا ۔ اللہ بہتر جانتا ہے ان کے قیام کی مدت کیا تھی۔

دوسرا قرینہ لَہٗ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی غیب کی باتیں اللہ کے علم میں ہیں۔ تمہیں کیا معلوم کہ ان کی تعداد کتنی ہے۔ تیسرا قرینہ اَبۡصِرۡ بِہٖ وَ اَسۡمِعۡ ہے کہ اللہ خوب دیکھنے اور سننے والا ہے اس کے مقابلے میں تمہاری کیا حیثیت ہے۔

ایک شامی شخص کی روایت کی بنا پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ قرآن پر وارد نہیں ہوتا۔ واضح رہے اصحاب کہف کے قصے کا قدیم ترین راوی ایک مسیحی پادری ہے جو شام کا باشندہ اور سیریا (موجودہ شام) کے چرچ کا سربراہ تھا۔ اس نے یہ قصہ پانچویں صدی عیسوی ۴۷۴ ء؁ کے لگ بھگ سالوں میں لکھا۔ اس روایت میں آیا ہے کہ اصحاب کہف نے قیصر دقیانوس (Decus) کے عہد سلطنت میں غار میں پناہ لی تھی۔ جس کی سلطنت ۲۴۹ ؁ سے ۲۵۱ ؁ تک قائم رہی اور قیصر تھیوڈوسیس (Theodosius) کے عہد میں بیدار ہوئے جس کی سلطنت ۴۰۸ ؁ سے ۴۵۰ ؁ تک قائم رہی۔ اس طرح اصحاب کہف کے خواب کی مدت ۱۹۷ سال بنتی ہے جب کہ قرآن تین سو نو سال بتاتا ہے۔

اس کے متعدد جوابات ہیں۔ پہلا جواب گزر گیا کہ قرآن نے لوگوں کے قول کی حکایت کی ہے خود کسی مدت کو بیان نہیں کیا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ سریانی روایت کا راوی سیریا (موجودہ شام) کا باشندہ تھا جب کہ یہ واقعہ شہر افیس (موجودہ ترکی کے شہر ازمیر) سے دور پیش آیا لہٰذا اصحاب کہف کی بیداری کی روایت اگر قابل اعتبار ہو سکتی ہے تو ان کی ہجرت کی تاریخ کے تعین کے بارے میں یہ روایت قابل اعتبار نہیں ہے۔

اصل تحقیق کے مطابق اصحاب کہف کا واقعہ قیصر روم طراجان کے عہد سلطنت ۹۸۔ ۱۱۷ء میں پیش آیا، نہ کہ قیصر دقیانوس ۲۵۱ء کے عہد میں جیسا کہ بعض مسیحی روایات میں آیا ہے، نہ دقیانوس ۳۰۵ء کے عہد میں جیسا کہ بعض دیگر مسلم و غیر مسلم روایات میں آیا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ اصحاب کہف قیصر تھیوڈوسیس کے عہد میں بیدار ہوئے جس کی سلطنت ۴۰۸ ء؁ سے ۴۵۰ء؁ تک رہی ہے۔ لہٰذا اگر ہم ۴۲۱ء؁ سے ۳۰۹ء؁ منفی کریں تو طراجان کا عہد سلطنت ۱۱۲ء نکل آتا ہے۔ (ملاحظہ ہو المیزان بحوالہ کتاب اکتشاف کہف اہل کہف۔)


آیات 25 - 26