آیات 20 - 21
 

اِنَّہُمۡ اِنۡ یَّظۡہَرُوۡا عَلَیۡکُمۡ یَرۡجُمُوۡکُمۡ اَوۡ یُعِیۡدُوۡکُمۡ فِیۡ مِلَّتِہِمۡ وَ لَنۡ تُفۡلِحُوۡۤا اِذًا اَبَدًا﴿۲۰﴾

۲۰۔ کیونکہ اگر وہ تم پر غالب آ گئے تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا اپنے مذہب میں پلٹائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو تم ہرگز فلاح نہیں پاؤ گے۔

وَ کَذٰلِکَ اَعۡثَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ لِیَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا ۚ٭ اِذۡ یَتَنَازَعُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اَمۡرَہُمۡ فَقَالُوا ابۡنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنۡیَانًا ؕ رَبُّہُمۡ اَعۡلَمُ بِہِمۡ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور اس طرح ہم نے (لوگوں کو) ان سے باخبر کر دیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (کے آنے) میں کوئی شبہ نہیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو کچھ نے کہا: ان (کے غار) پر عمارت بنا دو، ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے، جنہوں نے ان کے بارے میں غلبہ حاصل کیا وہ کہنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد بناتے ہیں۔

تشریح کلمات

اَعۡثَرۡنَا:

( ع ث ر ) اعثر باخبر کر دیا۔ عثر کے معنی پھسل جانے اور گر پڑنے کے ہیں۔ مجازاً کسی بات پر مطلع ہو جانے کے بھی ہیں۔ اعثرہ علی کذا اس چیز سے باخبر کر دیا۔

تفسیر آیات

۱۔ اسلامی و سریانی روایت کے مطابق اس زمانے میں قیامت کے موضوع پر گرما گرم بحث چل رہی تھی۔ مسیحی آخرت پر ایمان رکھتے تھے اور ان کے مقابلے میں بت پرستی کی باقیات جو ابھی تک خاصی مؤثر تھیں، قیامت کی منکر تھیں۔ عین ان دنوں میں اصحاب کہف کی بیداری کا واقعہ پیش آیا جس سے حیات بعد الموت کے اثبات کے لیے ایک ناقابل تردید ثبوت مل گیا۔ جیسا کہ آیت کی ابتدا میں فرمایا: وَ کَذٰلِکَ اَعۡثَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ لِیَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا ۔۔۔۔

۲۔ اِذۡ یَتَنَازَعُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اَمۡرَہُمۡ: یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ اصحاب کہف کے بارے میں دو موقف وجود میں آئے تھے۔ ان میں نزاع تھا۔ ابن عباس کی روایت کے مطابق یہ نزاع اصحاب کہف کی موت کے بعد واقع ہوا تھا۔ نزاع کی نوعیت آیت کے اگلے جملے سے معلوم ہوتی ہے:

۳۔ فَقَالُوا ابۡنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنۡیَانًا: ایک موقف یہ تھا کہ ان پر ایک دیوار بنا دو۔ بظاہر ان کا مطلب یہ تھا کہ غار کے دہانے پر ایک دیوار بنا دو اور غار کو بند کردو۔ یہ لوگ خدا کے خاص بندے ہیں۔ انہیں ان کی خواب و بیداری سے کیا سروکار۔ کچھ ثابت ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے، وہ کس دین و مذہب کے پیروکار تھے؟ ان سب کے بارے میں ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے: رَبُّہُمۡ اَعۡلَمُ بِہِمۡ ۔ ہم انہیں کسی امر پر دلیل قرار نہیں دیتے۔

۴۔ رَبُّہُمۡ اَعۡلَمُ بِہِمۡ کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم ان کے بارے میں کوئی موقف نہیں بناتے۔ یہ بات ان لوگوں کے موقف کے ساتھ سازگار ہے جو حیات اخروی کے منکر تھے۔ اصحاب کے خواب و بیداری سے ان کے موقف میں کمزوری آ گئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ اصحاب کا واقعہ ایک زندہ حقیقت اور حیات بعد الموت پر ایک دلیل کے طور پر باقی نہ رہے۔ اس لیے وہ غار کو بند کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کے آثار باقی نہ رہیں۔

صالحین نصاریٰ یہ نہیں کہہ سکتے: ان کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں،کس مرتبے کے ہیں۔ صالحین تو انہیں اور ان کے مرتبے کو جان چکے تھے۔ اسی لیے ان سے صالحین کے موقف کو تقویت ملی تھی۔

قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا: یہ ان لوگوں کا موقف ہو سکتا ہے جو حیات اخروی کے قائل تھے اور اصحاب کہف کے واقعے کو اللہ کی نشانی اور اپنے موقف کے حق میں دلیل سمجھتے تھے۔

نیز یہ تعبیر کہ ہم مسجد بنائیں گے شاہد ہے کہ یہ نصاریٰ کے صالحین کا موقف ہے کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ کے لیے مختص ہے اور لفظ کو زیادہ تقدس حاصل ہے۔ قرآن دیگر ادیان کی عبادت گاہوں کو مسجد کے ساتھ تعبیر نہیں فرماتا۔ چنانچہ سورۃ الحج کی آیت ۴۰ میں فرمایا:

وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ۔۔۔۔

اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے روکے نہ رکھتا تو راہبوں کی کوٹھریوں اور گرجوں اور عبادت گاہوں اور مساجد کو جن میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم کر دیا جاتا۔

اس آیت میں راہبوں کی عبادت گاہ کو صومعۃ ، مسیحیوں کی عبادت گاہ بیع ، یہود کی عبادت گاہ کو صلوات اور مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مساجد کہا ہے۔

تفہیم قرآن کایہ موقف نہایت غیر منصفانہ ہے:

یہاں قرآن مسجد بنانے والوں کی گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے کے لیے دکھائی گئی تھی، اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے خداداد موقع سمجھا اور خیال کیا: چلو کچھ اور دلی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے۔

حالانکہ قرانی تعبیر میں مسجد بنانے والوں کی گمراہی کی طرف نہ صرف کوئی اشارہ نہیں ہے بلکہ لہجہ کلام مویدانہ ہے۔ جو لوگ نزاع آخرت یا اصحاب کہف کے بارے میں نزاع میں غالب آ گئے وہ مسجد بنانا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے اس وقت ان دونوں مسائل میں غالب آنے والے لوگ اہل ایمان تھے چونکہ اصحاب کہف کے واقعہ سے اہل ایمان کے موقف کو غلبہ حاصل ہوا تھا۔ اس زمانے میں بت پرستوں کے غلبہ کا کوئی امکان نہیں تھا۔

یہ کہنا غالب آنے والے سلطنت روم کے ارباب اقتدار تھے۔ صحیح ہے لیکن یہ تاویل کہ وہ لوگ پھر سے بت پرست ہو گئے تھے، صحیح نہیں ہے۔

چنانچہ اکثر مفسرین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جو لوگ اصحاب کہف کے مذہب پر تھے وہ مسجد بنانا چاہتے تھے اور اس کی ایک روایت بھی تائید کرتی ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی و روح المعانی ۔

رہا یہ سوال کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نہایت شدت سے منع کیا گیا ہے کہ قبور انبیاء کو مساجد قرار نہ دو۔

مسلم کی روایت ہے

الا و ان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیاء ہم مساجد فانی انھاکم عن ذلک ۔

آگاہ رہو تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیتے تھے میں تمہیں اس عمل سے روکتا ہوں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:

لاَ تَتَّخِذُوا قَبْرِی قِبْلَۃً وَلَا مَسْجِداً فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَعَنَ الْیَھُودَ حِیْنَ اتَّخَذُوا قُبُورَ اَنْبِیَائِ ھِم مَسَاجِدَ۔ (الفقیہ ۱: ۱۷۸)

میری قبر کو قبلہ اور مسجد نہ بنانا۔ اللہ تعالیٰ نے یہود پر اس لیے لعنت بھیجی کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنایا تھا۔

ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ خود قبر کو ہی مسجد یا قبلہ نہ بنایا جائے۔ چنانچہ تفسیر روح المعانی نے بیان کیا: و اتخاذ القبر مسجداً معناہ الصلوۃ علیہ او الیہ ۔ آیت سے جس مسجد کا ذکر ملتا ہے، وہ یہ نہیں کہ اصحاب کہف کے غار کو مسجد بنایا ہے بلکہ اس غار کے پاس مسجد بنائی یا کسی نبی کی قبر کے پاس مسجد بنائی جائے تو یہ ممنوع کے مصداق میں نہیں آتا۔

اہم نکات

۱۔ اصحاب کہف کے واقعے کی روح، حیات اخروی کی سچائی ہے۔

۲۔ صالح بندوں کی قبروں کے جوار میں مسجد بنائی جا سکتی ہے۔


آیات 20 - 21